محقق صاحب نے گانے کو جائز کہہ دیا

اشرفیہ کے  مفتی نظام الدین نے فلمی گانے کے جائز ہونے کی راہ نکال دی، معاذاللہ! ان کی آواز میں سنیے:


اس طرح کا غلط فتویٰ دینے کے باوجود مفتی نطام الدین کا دعویٰ ہے کہ “میرے فتاویٰ اور جواب فتاویٰ رضویہ سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ ” معاذاللہ  یعنی وہ اپنے قول یا فتویٰ پر قائم ہیں اور وہ  یہ ہے کہ (کچھ باتوں کے استثناء کے ساتھ) فلمی گانے سننا یا گانا جائز ہے۔  اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ سرے سے انکار کردیتے اور یہ کہتے کہ ہرگز میں نے فلمی گانوں کو جائز نہیں کہا ہے، بلکہ یہ مجھ پر بہتان ہے۔ مگر انھوں نے ایسا نہیں کہا اور اپنے فتویٰ پر قائم رہ کر زبردستی اُسے فتاویٰ رضویہ کے موافق ٹھہرانے کی ناکام کوشش کی۔  ان کے وضاحتی بیان کی سُرخی دیکھیے:

گانے کے بارے میں علمائے اہلسنت کے ارشادات

 حضور شارح بخاری حضرت علامہ مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ نے فرمایا:
” فلمی گانے سننا حرام و گناہ ہے۔”
(فتاویٰ شارح بخاری، جلد2، صفحہ 497)

 حضور تاج الشریعہ  نے ایک جملے میں گانے کا حکم بتادیا، سنیے: 

گانے کے بارے میں شاندار تفصیلی حکم  سنیےجس کے بعد ان  شاء اللہ تعالیٰ  آپ بالکل مطمئن ہو جائیں گے جبکہ نیچے لکھے ہوئے فتوے کا مضمون اس کے علاوہ ہے

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ
16 دسمبر 2022 کو مفتی نظام الدین صاحب نے وادئ نور آزاد میدان (ممبئی) میں سنی دعوت اسلامی کے تیسویں سالانہ پروگرام میں گانا گانے اور سننے کو مباح قرار دیا ہے اور گانے کی قسمیں بیان کرتے ہوئے فرمایا:
گانے کی تین قسمیں ہیں:
ایک قسم کفر ، دوسری حرام۔ تیسری مباح۔
(1) جس گانے کا مضمون کفر پر مشتمل ہو وہ کفر۔
(2) جس گانے کا مضمون حرام پر مشتمل ہو وہ حرام۔
(3) اور جو ان دونوں سے خالی ہو وہ مباح۔
پوچھنے والے نے پوچھا: مباح سے کیا مراد ہے؟
تو انہوں نے فرمایا:
“جس کا سننا جائز و درست ہو۔”
دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا یہ تحقیق صحیح ہے؟
اور کیا ایسا گانا جو کفر اور حرام مضمون سے خالی ہو، ان کا بغیر موسیقی و مزامیر کے سننا جائز و درست ہے؟
بطور ثبوت وہ کلپ بھی آپ کو بھیج رہا ہوں جس میں یہ تحقیق پیش کی گئی ہے۔
برائے کرم تشفی بخش جواب جلد از جلد عنایت فرمائیں۔
بینوا توجروا
المستفتی: محمد روش مومن
بنگال پورہ بھیونڈی مہاراشٹر
_______________
الجواب بعون الملک الوھاب
عرف میں گانے سے مراد مجازی عاشقوں کا ایسا کلام ہے جو اکثر فحش، بےہودہ اور بے معنی ہوتا ہے اور بعض اوقات بہت غلط الفاظ استعمال ہوتے ہیں جو کہ کفریہ کلمات پر مشتمل ہوتے ہیں۔ گانا سننا مطلقاً ناجائز و حرام ہے اس کو جائز و درست کہنا صحیح نہیں بلکہ یہ فتنوں کا دروازہ کھولنا، عوام الناس کو گناہوں پر جری کرنا ہے۔ گانے کے حکم کا اقل درجہ (کم از کم حکم)ممنوع ہے نہ کہ مباح۔ اور آج کل جو گانا رائج ہے اس میں موسیقی کا استعمال ہوتا ہے، جوکہ نص قطعی سے حرام ہے۔
قال اللہ تعالیٰ: ومن الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم و یتخذھا ھزوا اولئک لھم عذاب مھین (سورۃ لقمان: ٦)
اس آیت کے شان نزول سے بھی گانا سننے کی حرمت کا ثبوت ملتا ہے۔ چنانچہ رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں نضر بن حارث کافروں میں ایک شخص تھا جو رسول الله ﷺ کا سخت مخالف اور بدترین دشمن تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ لوگ قرآن کریم کی طرف متوجہ نہ ہوں، وہ تجارت کی غرض سے ملک فارس جاتا اور وہاں سے رستم اور اسفند یار کے قصے خرید کر لاتا اور مکہ مکرمہ میں لوگوں کو جمع کرکے سناتا تاکہ لوگ قرآن کریم سننے اور اسلام قبول کرنے سے باز رہیں۔ یہ دشمن اسلام لوگوں سے کہتا کہ یہ پیغمبر تم کو قوم عاد اور قوم ثمود کے قصے سناتے ہیں، میں تم کو ایران کی مشہور لڑائیوں اور مشہور پہلوانوں کے قصے سناتا ہوں۔ تم ہی بتاؤ دونوں قسم کے قصوں میں دلچسپی کون سے قصوں میں ہے؟ بلکہ ایک دفعہ وہ ایک گانے والی لونڈی خرید کر لایا اور جس کو دیکھتا کہ وہ اسلام کی طرف مائل ہے، اس کو اپنے گھر لے جا کر کھانا کھلاتا اور گانا سنوا کر قرآن کریم سے مقابلہ کرتا اور پوچھتا بتا کہ مزہ اور دل لگی گانے میں ہے یا قرآن کریم میں؟ (معاذاللہ) سوال کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ لوگ ان قصے کہانیوں میں اور گانے باجے میں لگ جائیں اور قرآنی ہدایت سے متنفر ہو جائیں، اس لئے یہ آیت اسی شخص کے بارے میں نازل ہوئی اور اللہ تعالٰی نے اس آیت کے ذریعے ہر اس چیز کو حرام قرار دے دیا جو اللہ تعالی کی عبادت سے اور اس کی یاد سے غافل کر دے، خواہ وہ قصے کہانیاں ہوں یا ہنسنے ہنسانے کی باتیں اور خرافات ہوں یا گانا سننا سنانا ہو، سب ناجائز ہیں۔
(تفسیر البحر المحیط، تفسیر روح البیان وغیرہما)
حدیث پاک میں ہے:
الغناء ينبت النفاق فی القلب کما ينبت الماء الزرع
(مشکوة شريف بحواله مسلم شريف)
یعنی گانا دل میں نفاق پیدا کرتا ہے جیسا کہ پانی سبزہ اگاتا ہے۔
اور ایک حدیث میں ہے:
عن أنس قال: قال رسول اللہ صلوسلم : من استمع إلی قینة صب في أذنیہ الآنک یوم القیامة، وفي روایة أخری عن أنس أیضاً: من قعد إلی قینة یستمع منھا صب اللہ في أذنیہ الآنک یوم القیامة (کنز العمال)
حضرت انس کا ارشاد ہے، حضور اکرم نے فرمایا کہ جو شخص گانا سنے گا تو قیامت کے دن اُس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔

گانا گانے اور اس کو سننے کی حرمت بیان کرتے ہوئے امام المحققین علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں:
“(وکرہ کل لھو) ای کل لعب وعبث، فالثلاثۃ بمعنی واحد کما فی شرح التاویلات، والاطلاق شامل لنفس الفعل، واستماعہ کالرقص والسخریۃ والتصفیق وضرب الاوتار من الطنبور والبربط والرباب والقانون والمزمار والصنج والبوق، فانھا کلھا مکروھۃ لانھا زی الکفار، واستماع ضرب الدف والمزمار وغیر ذلک حرام، وان سمع بغتۃ یکون معذورا ویجب ان یجتھد ان لا یسمع”
(ردالمحتار،ج۹، ص٥٦٦، کتاب الحظر والاباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ، فصل فی البیع)

سوال میں مذکور تین قسمیں جن میں سے آخری قسم وہ ہے جو کفر و حرام مضمون سے خالی ہو اس کو مباح (جائز و درست) قرار دیا گیا جبکہ مجتہد فی المسائل اعلی حضرت نے تینوں قسموں کو ممنوع قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں:
“سماع مجرد بے مزامیر، اس کی چند صورتیں ہیں:
اول رنڈیوں ڈومنیوں محل فتنہ امردوں کا گانا۔
دوم جو چیز گائی جائے معصیت پر مشتمل ہو مثلاً فحش یا کذب یا کسی مسلمان یا ذمی کی ہجو یا شراب و زنا وغیرہ فسقیات کی ترغیب یا کسی زندہ عورت خواہ امرد کی بالیقین تعریف حسن یا کسی معین عورت کا اگرچہ مردہ ہو ایسا ذ کر جس سے اس کے اقارب احبا کو حیا و عار آئے۔
سوم بطور لہو و لعب سنا جائے اگرچہ اس میں کوئی ذکر مذموم نہ ہو۔
تینوں صورتیں ممنوع ہیں۔
الاخيرتان ذاتاً والاولى ذريعة حقيقة
ایسا ہی گانا لہو الحدیث ہے۔
اس کی تحریم میں اور کچھ نہ ہو تو صرف حدیث

کل لعب ابن آدم حرام الا ثلثہ کافی ہے۔
ان کے علاوہ وہ گانا جس میں نہ مزامیر ہوں، نہ گانے والے محل فتنہ، نہ لہو ولعب مقصود، نہ کوئی ناجائز کلام گائیں بلکہ سادے عاشقانه گیت غزلیں ذکر باغ و بہار و خط و خال و رخ و زُلف و حسن و عشق و ہجر و وصل و وفائے عشاق وجفائے معشوق وغیرہا امور عشق و تغزل پر مشتمل سنے جائیں تو فساق و فجار و اہل شہوات دنیہ کو اس سے بھی روکا جائے گا۔
وذلك من باب الاحتياط القاطع والنصح الناصح و سد الذرائع المخصوص به هذا الشرع البارع والدین الفارع اسی طرف حديث الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء البقل ناظر رواه رواه ابن ابی الدنيا في ذم الملاهي عن ابن مسعود البيهقي في شعب الایمان عن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنهما عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور اہل اللہ کے حق میں یقینا جائز بلکہ مستحب کہئے تو دور نہیں۔
گانا کوئی نئی چیز پیدا نہیں کرتا بلکہ دبی بات کو ابھارتا ہے۔ جب دل میں بری خواہش، بیہودہ آلائشیں ہوں تو انھیں کو ترقی دے گا۔ اور جو پاک مبارک سُتھرے دل شہوات سے خالی اور محبت خدا و رسول سے مملو ہیں اُن کے اس شوق محمود و عشق مسعود کو افزائش دے گا۔
و حکم المقدمة حكم ماهي مقدمة له انصافا ان بندگان خدا کے حق میں اسے ایک عظیم دینی کام ٹھہرانا کچھ بے جانہیں فتاوی خیریہ میں ہے لیس في القدر المذكور من السماع ما يحرم بنص ولا اجماع وانما الخلاف في غير ما عين والنزاع في سوى ما بين وقد قال بجواز السماع من الصحابه والتابعين جم غفیر (الی ان قال) اما سماع السادة الصوفية رضى الله تعالى عنهم فبمعزل عن هذا الخلاف بل ومرتفع عن درجة الاباحة الى رتبة المستحب كما صرح بہ غير واحد من المحققین
یہ اس چیز کا بیان تھا جسے عرف میں گانا کہتے ہیں اور اگر اشعار حمد و نعت و منقبت و وعظ و پند و ذکر آخرت بوڑھے یا جوان مرد خوش الحانی سے پڑھیں اور بہ نیت نیک سُنے جائیں کہ اسے عرف میں گانا نہیں بلکہ پڑھنا کہتے ہیں تو اس کے منع پر تو شرع سے اصلا دلیل نہیں۔ حضور پرنورسید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے خاص مسجد اقدس میں منبر رکھنا اور ان کا اس پر کھڑے ہو کر نعت اقدس سُنانا اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وصحابہ کرام کا استماع فرمانا خود حدیث صحیح بخاری شریف سے واضح اور عرب کے رسم حدی زمانہ صحابہ و تابعین بلکہ عہد اقدس رسالت میں رائج رہنا، خوش الحانی رجال کے جواز پر دلیل۔ لائح انجشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حدی پر حضور والا صلوات اللہ تعالیٰ وسلامہ علیہ نے انکار نہ فرمایا بلکہ بلحاظ عورات رويدك يا انجشه لا تكسر القواریر یہ ارشاد ہوا کہ ان کی آواز دلکش و دل نواز تھی، عورتیں نرم نازک شیشیاں ہیں جنھیں تھوڑی ٹھیسں بہت ہوتی ہے۔ غرض مدارِ کار تحقیق و توقع فتنہ ہے، جہاں فتنہ ثابت، وہاں حکم حرمت، جہاں توقع و اندیشہ، وہاں بنظر سد ذریعہ حکم ممانعت، جہاں نہ یہ نہ وہ، نہ یہ نہ وه بلکه به نیت محمود استحباب موجود۔ بحمد اللہ یہ چند سطروں میں تحقیق نفیس ہے کہ ان شاء اللہ العزیز حق اس سے متجاوز نہیں۔ نسأل الله سوى الصراط من دون تفريط ولا افراط والله اعلم بالصواب
(فتاویٰ رضویہ،ج۹، ص۵۵-٥٦)
سماع الغناء مع المعازف حرام ہونے پر علماء کا اتفاق ہے۔
فتاویٰ شارح بخاری میں ہے:
“فلمی گانے سننا حرام وگناہ ہے”
(ج۲، کتاب العقائد،باب الفاظ الکفر)
فتاویٰ تاج الشریعہ میں ہے:
“گانے ناچ اور لہو و لعب جملہ ملاہی حرام ہیں۔ درمختار میں ہے:
دلت المسئلة علی ان الملاھی کلھا حرام
(ج۹، ص٢٢١)
صحیح بخاری کی روایت ہے:
’’حدیث ابی مالک الاشعری ان النبی قال لیکونن من امتی اقوام یستحلون الحر والحریر والخمر والمعازف‘‘
(اخرجہ البخاری فی الصحیح،رقم:۵۵۹۰)
یعنی میری امت میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو زنا ، ریشم، شراب اور راگ، باجوں کو حلال قرار دیں گے۔
اسی طرح ابن ماجہ کی روایت ہے:
’’لیشربن الناس من امتی الخمر یسمونھا بغیر اسمھا یعزف علی رؤسھم بالمعازف والمغنیات یخسف اللّٰہ بھم الارض ویجعل منھم القردۃ والخنازیر
(اخرجہ ابن ماجہ فی السنن، رقم: ٤٠٦٩)
یعنی میری امت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے مگر اس کا نام بدل کر، ان کی مجلسیں راگ، باجوں اور گانے والی عورتوں سے گرم ہوں گی۔ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے بعض کو بندر اور خنزیر بنا دے گا۔
قرآن و حدیث اور کتب فقہ سے گانے بجانے وغیرہ کی حرمت پر جو اجماع ہے اس کے برخلاف اگر کوئی گانا سننے کو مباح اور جائز و درست بتائے تو ایسے شخص کے لیے مذکور بالا بخاری و ابن ماجہ کی حدیث میں سخت وعید وارد ہے۔
فتاویٰ بحرالعلوم میں ہے:
“آج کل کے گانے اور باجے کو حدیث کریمہ سے جائز ثابت کرنا زیادتی ہے۔”
(ج٤، ص۳۰۲)
لہٰذا گانا کی تین قسمیں بنا کر جواز کی صورت نکالنا، یہ کوئی تحقیق نہیں بلکہ قرآن و حدیث اور فقہاء کرام سے اختلاف ہے۔ گانا سننا ناجائز و حرام ہے اور گانا سننے کو مباح (جائز و درست) کہنا شریعت پر جھوٹ بولنے کی جسارت و جرأت ہے۔ لہٰذا مفتی صاحب قبلہ کو اپنے قول سے رجوع کرنا چاہیے۔
واللہ تعالــیٰ اعلم بالـصواب
کتبـــــــہ
محمد توفیق خان رضوی
المتخصص رضــا دارالافـتاء
دارالعلوم حشمت الرضا
بھیونڈی مہاراشٹر
۷/جمادی الآخرة ١٤٤٤ھ
31/ دسمــــبر 2022
_____________
الجواب صحیح:-
مفتی محمد محبوب رضا مصباحی
صدر: شعبہ تحقیق و افتاء
دارالعلوم حشمت الرضا
بھیونڈی مہاراشٹر


مفتی نظام الدین کے چہیتے خطیب نے رام کی خوب تعریف کی جسے 100 سے زائد علمائے اہلسنت نے  کفرکہا لیکن مفتی نظام الدین نے  یہاں بھی اپنی انوکھی تحقیق کا حیرت انگیز جلوہ دکھایا اورکہا کہ ’’اس تقریر سے خطیب کے ایمان پر کوئی آنچ نہیں آتی بلکہ یہ تو اس کے ایمان کی نشانی ہے۔‘‘ معاذاللہ! تفصیل جاننے کیلئے کلک کیجیے:

بہار شریعت اردو، ہندی اور انوارالبیان  گھر بیٹھے نصف سے کم ہدیے میں چاہیے تو کِلک کریں۔

مفتی نظام الدین کے چہیتے خطیب نےصحابی رسول، کاتب وحی ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں گستاخی کی۔ تفصیل کیلئے کلک کیجیے:

نام نہاد امیر و داعی جواب دیں!
جس وقت صحابی رسول، کاتب وحی ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں گستاخی ہورہی تھی،
اُس  وقت تم خاموش کیوں تھے؟
بٹن دبائیے اورواقعہ کی  تفصیل دیکھیے :
۔

سنی دعوت اسلامی کے تعلق سے جید علمائے اہلسنت کا حکم جاننے کیلئے کلک کیجیے:

کیا آپ نے کِلکِ رضا کا تعاون کیا؟
اگر نہیں تو اِس طرف بھی کچھ توجہ کیجیے  کیونکہ کسی بھی مشن کو جاری رکھنے کیلئے اخراجات کی ضرورت پڑتی ہے!
اس کے بغیر کام کرنے کی رفتار کم ہو جاتی ہے اور ہر منصوبے پر عمل نہیں ہوپاتا۔ نیچے بٹن پر کِلک کریں:-

Bahar e Shariat Mukammal Ghar Baithe Discount Hadiye Me Hasil Karne Ke Liye Niche Click Karen.

Don`t copy text!