Corona Virus Aur izne Aam

کورونا وائرس،اذن عام اور علمائے کرام

محقق مسائل فقہیہ، فقیہ عصر مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مفتی محمد مطیع الرحمن رضوی مظفر پوری کی کوروناوائرس،لاک ڈاؤن،اذن عام اور دوسرے اہم مسائل پہ تحقیقی گفتگو

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسائل مندرجہ ذیل میں ۔
(۱)کیا کورونا و طاعون جیسے امراض کا متعدی ہونا شرعاً ثابت ہے ؟
(۲)حدیث شریف ’’القاعد فیھا خیر من القائم‘‘سے امراض کے متعدی ہونے پردلیل لانا درست ہے؟
(۳)مذکورہ بیماریوں سے بچنے کے لیے مسجدوں سے نمازیوں کو روکنا اور جمعہ کی ادائیگی کے لیے محض چار،پانچ لوگوں کو شریک ہونے کی اجازت دینے اور بقیہ نمازیوں کو روک دینے سے جمعہ کی ایک شرط اذن عام کا فوت ہونا لازم نہیں آتا ؟
(۴)کورونا سے مرنے والے مسلمان میت کو بلا غسل و کفن اور بلا نماز جنازہ دفن کرنے کی شریعت میں کہیں سے اجازت ملتی ہے ؟
(۵)مذکورہ معاملات میں ایسے فرمان کی پابندیاں مسلمانوں پر لازم ہیں ؟
المستفتی
محمد عرفان عالم نظامی
مقام : میاں ٹولہ،سلیم گڑھ،کشی نگر،یوپی ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
(۱)مجدد دین و ملت امام احمد رضا فاضل بریلوی قدس سرہٗ القوی نے ہر دو قسم کی درجنوں احادیث نقل فرماکر معرکۃ الآرا تطبیق فرمائی پھر معتمد شراح حدیث کے اقوال اور خود نبی اکرم ﷺ اور ان کے جلیل القدراصحاب کے افعال نقل فرماکر یوں رقم طراز ہیں :
’’با لجملہ مذہب معتمد و صحیح ورجیح و نجیح یہ ہے کہ جذام،کھجلی،چیچک،طاعون وغیرھا اصلا ً کوئی بیماری ایک دوسرے کو ہرگز   اڑ کر نہیں لگتی۔ یہ محض اوھام بے اصل ہیں۔کوئی وہم پکائے جائے تو کبھی اصل بھی ہوجا تا ہے کہ ارشاد ہوا ’انا عند ظن عبدی بی‘وہ اس دوسرے کی بیماری اسے نہ لگی بلکہ خوداسی کی باطنی بیماری کہ وہم پروردہ تھی صورت پکڑ کر ظاہر ہوگئی۔ فیض القدیرمیں ہے ’بل الوھم وحدہٗ من اکبر اسباب الاصابۃ‘ اس لئے اور نیز کراہت و اذیت و خود بینی و تحقیر مجذوم سے بچنے کے واسطے اور نیز اس دور اندیشی سے کہ مبادا اسے کچھ پیدا ہو اور ابلیس لعین وسوسہ ڈالے کہ دیکھ بیماری اڑ کر لگ گئی اور اب معاذاللہ اس امر کی حقانیت اس کے خطرہ میں گزرے گی جسے مصطفیٰ ﷺ باطل فرما چکے۔ یہ اس مرض سے بھی بد تر مرض ہوگا ۔ ان وجوہ سے شرع حکیم و رحیم نے ضعیف الیقین لوگوں کو حکم استحبابی دیا ہے کہ اس سے دور رہیں اور کامل الایمان بندگان خدا کے لیے کچھ حرج نہیں کہ وہ ان سب مفاسد سے پاک ہیں ۔خوب سمجھ لیا جائے کہ دور ہونے کا حکم ان حکمتوں کی وجہ سے ہے، نہ یہ کہ معاذاللہ بیماری اڑ کر لگ جائے گی۔ اسے تو اللہ و رسول جل جلالہٗ و  ﷺ رد فرماچکے ۔‘‘
اقول: پھر ازانجاکہ یہ حکم ایک احتیاطی استحبابی ہے واجب نہیں، ہرگز کسی واجب شرعی کا معارضہ نہ کرے گا مثلاً معاذاللہ جسے یہ عارضہ ہو اس کے اولاد و اقارب و زوجہ سب اس احتیاط کے باعث اس سے دور بھاگیں اور اسے تنہا و ضائع چھوڑدیں یہ ہر گز حلال نہیں بلکہ زوجہ ہر گز اسے ہمبستری سے بھی منع نہیں کرسکتی‘‘ (الحق المجتلی فی حکم المبتلی) 
صدیق ؔاکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معلوم تھا کہ طاعون کو ملک شام کا حکم ہواہے اور بلاد شام فتح کرنے تھے لہٰذا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو لشکر ملک شام کو روانہ فرماتے اس سے دونوں باتوں پر یکساں بیعت و عہد وپیمان لیتے، ایک یہ کہ دشمنوں کے نیزوں ؔسے نہ بھاگنا دوسرے یہ کہ طاعون سے نہ بھاگنا۔ یہ روایت نقل کرکے اعلیٰ حضرتؔ قدس سرہٗ فرماتے ہیں:
’’یہاں سے خوب ثابت و ظاہر ہوا کہ مسلمانوں کو فرار عن الطاعون کی ترغیب دینے والا ان کا خیر خواہ نہیں، بد خواہ ہے اور طبیبوں، ڈاکٹروں کا اس میں صبر و استقلال سے منع کرنا خیر و صلاح کے خلاف باطل راہ ہے ۔اس کے بعد ایک تنبیہ فرماتے ہیں ۔
تنبیہ نبیہ : جس طرح طاعون سے بھاگنا حرام ہے اور اس کے لیے وہاں جانا بھی ناجائز و گناہ ہے احادیث صریحہ میں دونوں سے ممانعت فرمائی، پہلے میں تقدیر الٰہی سے بھاگنا ہے تو دوسرے میں بلائے الٰہی سے مقابلہ کرنا ہے اوراس کے لیے اظہار توکل کا عذر محض سفاہت ۔ توکلؔ معارضۂ اسباب کا نام نہیں۔‘‘
اب تفصیلی حکم ملاحظہ فرمائیے،آپ فرماتے ہیں:
’’اس قدر کی ممانعت میں ہرگز گنجائش سخن نہیں، اب رہا یہ کہ جب طاعونؔ سے بھاگنے یا اس کے مقابلہ کی نیت نہ ہو تو شہر طاعونی سے نکلنا یا دوسری جگہ سے اس میں جانا فی نفسہٖ کیسا ہے؟ اس میں ہمارے علما کی تحقیق یہ ہے کہ بجائے خود حرام نہیں مگر نظر بہ پیش بینی یہاں دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ انسان کامل الایمان ہے ’لن یصیبنا الا ما کتب اللہ لنا‘  کی بشاشت و نورانیت اس کے دل کے اندر سرایت کئے ہوئے ہے۔ اگر طاعونی شہر میں کسی کام کو جائے اور مبتلا ہو جا ئے تو اسے یہ پشیمانی عارض نہ ہوگی کہ نا حق آیا کہ بلانے لے لیا یا کسی کام کو باہر جائے تو یہ خیال نہ کرے گا کہ خوب ہوا کہ اس بلا سے نکل آیا خلاؔصہ یہ کہ اس کا آنا جانا بالکل ایسا ہو جیسا طاعون نہ ہونے کے زمانے میں ہوتا تو اسے خالص اجازت ہے اپنے کاموں کو آئے جائے جو چاہے کرے کہ نہ فی الحال نیت فاسدہ ہے نہ آئندہ فساد فکر کا اندیشہ ہے اور جو ایسا نہ ہو اسے مکروہ ہے کہ اگر چہ فی الحال نیت فاسدہ نہیں کہ حکم حرمت ہو مگر آئندہ فساد پیدا ہونے کا اندیشہ ہے لہٰذا کراہت ہے۔‘‘
(تیسیر الماعون للسکن فی الطاعون )
اس اعلیٰ واصح و ارجح و انجح تحقیق انیق سے روز روشن کی طرح یہ ثابت ہو گیا کہ کوئی مرض متعدی نہیں ہوتا جیساکہ خود دافع البلاء وا لوباء طبیب مریض لا دوا حضور احمد مجتبیٰ علیہ التحیۃ و الثناء فرما چکے: لا عدویٰؔ کوئی بیماری اڑ کر نہیں لگتی اس میں یہ تاویل علیل کہ
’’ در حقیقت میں بیماری بذات خود اڑ کر نہیں لگتی مگر مریض کے جسم کے جراثیم کا اڑکر دوسرے کے جسم میں سرایت کرنا، اسلام نے کبھی اس کا انکار نہیں کیا ہے ۔ یہ تعدیۂ مرض نہیں ہے ۔اس کی واقعی تعبیر،سچی تعبیر تعدیۂ جراثیم مرض ہے۔‘‘
فاقول و باللہ التوفیق:
اولاً: یہ تاویل طب فلسفی کے اصول و قواعد پر مبنی ہے تو جہاں طب وغیرہ شرعی اصولوں کی موافقت کرے وہاں ٹھیک ہے اور جہاں ظاہر حدیث کے خلاف ہو یا مطلق کو مقید کرے وہاں موافقت درست نہیں۔
ثانیاً:  اگر یہ مفروضہ درست ٹھہرے تو حضور اکرم ﷺ و اجلۂ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی عملی کارروائی اپنے آپ کو بلا کے لیے پیش کرنا ٹھہرے جو کسی طرح لائق تسلیم نہیں۔
ثالثاً:  پھر جذام شوہر سے عورت کو فسخ نکاح کی درخواست کا اختیار حاصل رہے گا جب کہ بر مذہب شیخین امام اعظمؔ و امام ابو یوسفؔ عورت کو اس کا اختیار نہیں رہتا ۔
رابعاً:  وبا والی جگہوں سے مرض نا رسیدہ لوگوں کو بھاگنے سے روکنا انھیں بلاؤں میں پھنسا نے کے مترادف ہوگا جب کہ طاعون سے بھاگنے والے کو جنگ سے بھاگنے والا فرمایا گیا ۔
خامساً: کوروناؔ مرض کی تشخیص تا ہنوز نا مکمل ہے اس لیے اس کا علاج بھی زیر تجویز ہے مگر   ۱؍جذام ۲؍خارش  ۳؍چیچک  ۴؍خسرہ  ۵؍گندہ دہنی  ۶؍آشوب چشم  اور۷؍ امراض و بائیہ یعنی ہیضہ و طاعون وغیرہ ۔ یہ سات امراض اطباء کے نزدیک متعدی ہیں (میں یہ نہیں جانتا کہ یہاں تعدیہ سے تعدیۂ مرض مراد ہے یا تعدیہ ٔ جراثیم مرض ) مگر شیخ ؔ محقق علی الاطلاق فرماتے ہیں:
شارع آنرا نفی کرد و ابطال نمود یعنی شارع نے ان سب کے تعدیہ کی نفی فرمائی اور اس کا ابطال کیا۔‘‘ (اشعۃ اللمعات)
سادساً:  حدیث ’لا عدویٰ‘ مطلق ہے۔ یہ تعدیہ ٔ مرض اور تعدیۂ جراثیم مرض دونوں کی نفی کو شامل ہے ورنہ فمن اعدی الاول، تو پہلے کوکس سے اڑ کر لگی ؟ کیوں فرمایا جاتا کہ اس سے پہلے نہ کوئی مریض ہے نہ مرض، لہٰذا تعدیۂ جراثیمِ مرض بھی نہیں ۔
سابعاً:  انفیکشن، وائرس اور چھوا چھوت یہ سب ہم معنیٰ ہیں جس کا کہ اہل جاہلیت یقین رکھتے تھے اور آج کے ڈاکٹر و اطباء بھی اس کے قائل ہیں۔ لہٰذا تعدیۂ جراثیم مرض کو درست مان لینا ان کے زعم باطل کو مان لینا ہے ٹھیک ویسے ہی جیسے نچھتروں کے ماننے والوں کا یہ کہنا ہے کہ ’مُطِرناَ بنوئِ کذا و کذا‘فلاں فلاں  ستاروں کی وجہ سے پانی برسا۔
ثامناً:  جراثیم کا منتقل ہونا  ہی مرض کے پھیلنے کا سبب ہے تو جمعہ و جماعت کے لیے پانچ لوگوںکو اجازت دینا انھیں بلا پر پیش کرنا نہ ہوا ؟
تاسعاً:  جمعہ اپنی شرطوں کے ساتھ فرض ہے اور گزر چکا کہ وبا کی جگہوں پر جانے کی ممانعت،حکم استحبابی ہے ۔لہٰذا جمعہ و جماعت سے روکنا یا رکنا فرض کے بالمقابل مستحب پر عمل کرنا یا کرا نا  نہ ہوا؟
عاشراً:  پھر یہ استحبابی حکم تو وہاں کے لیے ہے جہاں یہ وبا پھیل چکی ہو، وہاں کے لیے نہیں جہاں بفضلہ تعالیٰ حفظ و امان ہے ۔کما لا یخفیٰ پھر حکم امتناعی عام کیوں ؟
یہاں اس حدیث پر روشنی ڈالنا بھی ضروری ہے جس کا ذکر موصوف نے اپنی ایک تحریری اپیل میں کیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ لاک ڈاؤن کا موجو دہ نفاذ اور اس پر عمل کرانے کے جملہ احکامات بشمول جمعہ و جماعات،حراسات و عقوبات، حدیث مذکور کے عین مطابق ہیں ؟
واضح رہے کہ جائز و مناسب پابندیوں کی خلاف ورزی یقینا قابل مذمت ہے۔ لہٰذا ایسی کسی اپیل پر اعتراض کا سوال ہی نہیں، اعتراض اس پر ہے کہ حدیث پاک کا مفہوم و مراد اور محمل جو بتایا گیا وہ مسلک محدثین و فقہا کے خلاف ہے جیسے کسی نے اس کی تائید میں ’وقرن فی بیوتکن آیت کریمہ پیش کردی،یوں ہی کسی نے کوروناؔ لفظ کو قرآن کریم کی مختلف آیتوں سے ک،و،ر،و،ن،الف، کا مجموعہ بتاکر  قرآنی نام دے دیا۔ ولاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۔
(۲)یہ حدیث پاک کتاب الفتن کی ہے جو اپیل مذکور میں بھی مسطور ہے اور فتن جمع ہے فتنہ کی اور فتنہ کے معنی حضرت محقق علی الاطلاق نے اشعۃ اللمعات میں چودہ تک بتائے ہیں وہ یہ ہیں ۔۱؍محنت، ۲؍آزمائش، ۳؍پسندآنا، ۴؍فریفتہ ہونا، ۵؍گمراہ ہونا، ۶؍گمراہ کرنا، ۷؍گناہ، ۸؍کفر، ۹؍ رسوائی، ۱۰؍عذاب، ۱۱؍ سونا آگ میں جلانا، ۱۲؍جنون، ۱۳؍آپسی جھگڑے، ۱۴؍ فساد۔
فتنہ سے یہاں کیا مراد ہے ؟ اس بابت علامہ عینیؔ فرماتے ہیں: اصل الفتنۃ الاختبار ثم استعملت فیما اخرجتہ المحنۃ والاختیار الی المکروہ ثم اطلقت علی کل مکروہ و آیل الیہ کالکفر والاثم و الفضیحۃ والفجور وغیر ذالک۔ اس سے معانی مذکورہ کی تائیدہوگئی ۔
اور حدیث باب کے تحت فرماتے ہیں ۔فتنہ سے مراد ہر قسم کے فتنے ہیں اور یہ بھی کہ اس سے مراد وہ اختلاف ہے جو اہل اسلام کے مابین امام کی بابت متفرق ہوجانے سے ہو۔
امام طبریؔ نے کہا صحیح یہ ہے کہ یوں کہا جا ئے کہ فتنہ اصل میں آزمائش ہے اور جس کا موقف باطل ہو تو ہراس شخص پر جو اس کے خلاف لڑ سکتا ہو، لڑنا واجب ہے پس جس نے فریق حق کی مدد کی اس نے درست کیا اور جس نے فریق باطل کی اعانت کی اس نے خطا کی۔
اب حدیث ملاحظہ ہو ’ستکون فتن القاعد فیھا خیر من القائم، والقائم خیر من الماشی، والماشی فیھا خیر من الساعی،من تشرف لھا تستشرفہٗ ومن وجد فیھا ملجاء فلیعذ بہٖ۔
عن قریب ایسے فتنے ہونگے کہ ان میں بیٹھا ہوا کھڑے سے بہتر ہوگا اور کھڑا چلنے والے سے اور چلنے والا دوڑنے والے سے، جو ان فتنوں کی طرف جھانکے گا وہ اسے بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا، جس کو ان دنوں کوئی بچاؤ کی جگہ کی مل سکے وہ اس میں پناہ لے لے ۔
اسمٰعیلی کی روایت میں النائم فیھا خیر من الیقظان،والیقظان خیر من القاعد‘ہے یعنی سویا ہوا بیدار سے اور بیدار بیٹھے ہوئے سے بہتر ہے ۔ اور مسلم کی روایت میں ہے ’الیقظان فیھا خیر من النائم، اورابو داؤد کی روایت میں ’المضطجع فیھا خیر من الجالس،والجالس خیر من القائم‘ اور بزار کی روایت میں ’المضطجع خیر من القائد فیھا‘ (عمدۃ القاری ) اور حدیث ابن مسعود میں ’والماشی فیھا خیر من الراکب‘ ہے(فتح الباری)
غرض مختلف روایات میں بظاہر الفاظ کچھ مختلف ہیں لیکن مراداً متحد ہیں۔ چنانچہ بیٹھنے سے مراد ان فتنوں سے الگ تھلگ رہنا ہے،کھڑے ہونے سے دور سے دیکھنا، ان پر خبر دارو مطلع ہونا، چلنے سے مرادان میں مشغول ہونا مگر معمولی طور پر اور دوڑنے سے مراد ان میں مشغول و منہمک ہونا ہے۔ غرض یہ سب بطور تشبیہ و استعارہ ارشاد ہوئے اور خلاصہ یہ کہ بیٹھنا، سونا، لیٹنا وغیرہ فتنوں سے واسطہ نہ رکھنے پر دال ہے جو ذریعہ ہوگا فتنوں سے حفاظت کا کہ نہ ان فتنوں کو دیکھے گا نہ ان کا اثر لے گا ۔ یوں ہی کھڑا رہنا، دور سے انھیں دیکھنا، ان پر مطلع ہونا اور ان فتنوں میں چلنا، ان میں مشغول ہونا اور دوڑنا، ان سے دلچسپی رکھنا اور ان میں زیادہ مشغول ہونا مراد ہے ۔  (فتح الباری،عمدۃ القاری،مرأۃ،شرح نوو ی )
علما فرماتے ہیں ان احادیث میں فتنوں سے ڈرایا ہے اور فتنوں میں داخل ہونے سے اجتناب کرنے پر بر انگیختہ کیا ہے اور ان فتنوں کا شر ان کے ساتھ تعلق پر موقوف ہے اور فتنوں سے مراد وہ لڑائی ہے جو ملک اور حکومت کی طلب میں اختلاف کی وجہ سے پیدا ہو جب کہ یہ معلو م نہ ہو کہ ان حکومت کے طلب گاروں میں حق پر کون ہے اور باطل پر کون ؟ اور صحیح بات یہ ہے کہ فتنہ اصل میں آزمائش ہے اور مسلمانوں پر حق کو قائم کرنا اور حق والوں کی مددکرنا اور برا ئی پر انکار کرنا واجب ہے اور جب دونوں فریق حق پر ہوں تو ان کے خلاف قتال کرنا عقلاً محال ہے اور شارع علیہ السلام نے جو فرمایا کہ فتنہ کے دوران بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہے۔  یہ اس فتنہ میں ہے جب دونوں فریق باطل پر ہوں ایسی صورت میں فتنہ میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہے اسی طرح جب دیکھنے والے کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو کہ ان میں سے کون خطا پر ہے اور کون حق و صواب پر ۔ (فتح الباری ۱۳ص ۴۶،عمدۃ القاری ۲۴ص۲۷۶نعم الباری ۱۵ص۹۶۹)
اسی باب کے بعد باب ’اذا التقیٰ المسلمان بسیفھما‘  یعنی جب دو مسلمان تلوار لے کر ایک دوسرے کے مقابل ہوں اس میں بھی فتنہ کا ذکر ہے اور مراد یہ ہے کہ جب تک حق نا حق میں تمیز نہ ہو کسی کا ساتھ نہ دے بلکہ لا تعلق ہو کر کسی گوشہ ٔ  تنہائی میں بیٹھ جائے یہی ’القاعد فیھا خیر من القائم‘  کا مفہوم ہے مگر وائرس والی اپیل جو وائرل ہو رہی ہے اس میں ’سماجی دوری‘ جس میں جمعہ و جماعات اور مسجد سے دوری بھی شامل ہے اس کو اس حدیث پاک کا محمل و مصداق قرار دینا گویا گمراہی پھیلانے کے مترادف ہے۔ چنانچہ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے کہا گیا کہ:
’’فتنہ کا معنیٰ ہے بلا، عذاب،آزمائش اور کورونا وائرس بلا شبہہ بلا بھی ہے، عذاب بھی اور آزمائش بھی اور مطلب یہ ہے کہ جو شخص جس قدر باہر زیادہ گشت کرے گا اسی قدر اسے آزمائش میں پڑنے کا امکان زیادہ ہوگا اور جو جس قدر لا تعلق رہے گا وہ اسی قدر محفوظ رہے گا۔ سونے والا سب سے زیادہ لا تعلق ہو جاتا ہے لہٰذا وہ سب سے زیادہ محفوظ رہے گا۔‘‘
(میں نہیں جانتا کہ آزمائش اور بلا میں کیا فرق ہے ؟)
مزید وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’ آج دنیا نے ’کورونا وائرس ‘سے بچنے کے لیے سب سے بہترین نسخہ ’سماجی دوری‘ کو تجویز کیا ہے جو رحمت عالم ﷺ کی ہدایت پر عمل ہے۔ لہٰذا مسلمان سرکار دوعالم ﷺ کی ہدایت کے مطابق اپنے گھروں میں رہیں اور استغفار، دعا،تلاوت میں مشغول رہیں ۔‘‘
گویا ’لاک ڈاؤن ‘ کا نسخہ نبوی نسخہ ہے اور حضور اکرم ﷺکی ہدایت کے مطابق نافذ کیا گیا لہٰذا مسلمانوں کے لیے دوسروں کے بالمقابل کچھ زیادہ ہی واجب العمل ہے۔   ع
ببیں کہ از کہ بریدی و باکہ پیوستی ؟
تحقیق جدید سے یہ اندیشہ دور نہیں کہ قاعدؔ و قائمؔ کے ظاہری معنی کو دیکھتے ہوئے کھڑے ہوکر نماز پڑھنے سے بیٹھ کر نماز پڑھنے کو بہتر قرار دے دیا جائے۔ یہ ہے نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے ۔
امام احمد رضا قدس سرہٗ فرماتے ہیں :
’’ طبی مسئلہ نحو سے نہ لیں گے نہ نحوی طب سے ۔ علما فرماتے ہیں شروح حدیث میں جو مسائل فقہیہ کتب فقہ کے خلاف ہوں مستند نہیں بلکہ تصریح فرمائی کہ خود اصول فقہ کی کتابوں میں جو مسئلہ خلاف کتب فروع ہو وہ معتمد نہیں بلکہ فرمایا جو مسئلہ کتب فقہ ہی میں غیر باب میں مذکور ہو، مسئلہ مذکور فی الباب کا مقاوم نہ ہوگا کہ غیر باب میں کبھی تساہل راہ پاتا ہے تو جو فرق مراتب گماکر خلط مبحث کرے جاہل ہے یا غافل، ذاہل۔ ‘‘واللہ تعالیٰ اعلم ۔
بحث اذن عام :
(۳) چار پانچ افراد ہی جمعہ پڑھیں۔ باقی لوگ اپنے اپنے گھروں میں جمعہ کے بدلے تنہا تنہا ظہر کی نماز ادا کری۔ں کورونا کرفیو،کورونا وائرس کے مضر اور مہلک اثرات سے بچانے کے لیے ہے ۔ نماز اور جماعت نماز سے روکنے کے لیے نہیں۔ اسی لیے اس کرفیو سے جمعہ کی ساتویں شرط ’اذن عام ‘ پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔
اس (کوروناوائرس )سے بچنے بچانے کی تدبیر’ سماجی دوری‘ تجویز کی گئی ہے جس کے لیے ’لاک ڈاؤن ‘ اور ’جنتا کرفیو‘ ضروری ہوا۔
لاک ڈاؤن کا اصل مقصد مطلق انسانی برادری کو ایک دوسرے کے قرب و اختلاط سے دور رکھنا ہے جو وائرس کے ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہونے اور پھیلنے کا سبب ہے تو یہاں جمعہ اور جماعت نماز سے روکنا مقصود نہیں ہے بلکہ صرف ’کورونا وائرس‘ اور اس کے مضر و مہلک اثرات سے دور رکھنا مقصود ہے اور ایسی ممانعت سے جمعہ کے اذن عام پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔
اذن عام کا مطلب ہے ہر نمازی کو مسجد میں آنے کی اجازت حالانکہ عورتوں کو اندیشۂ فتنہ کی وجہ سے اور موذی کو اندیشۂ ایذا کی وجہ سے مسجد آنے کی ممانعت ہے۔ تو جیسے اندیشۂ فتنہ کی وجہ سے عورتوں کو اور اندیشۂ ایذا کی وجہ سے موذی کو ممانعت ’اذن عام ‘ پر اثر انداز نہیں اور جمعہ صحیح ہوتا ہے ویسے ہی وائرس کے اندیشہ و ضرر کی وجہ سے عام انسانی برادری کو قرب و اختلاط سے ممانعت بھی ’اذن عام ‘ پر اثر انداز نہ ہوگی اور جمعہ صحیح ہوگا ۔
مختصر یہ کہ ممانعتؔ کی بنیاد نماز و جماعت نماز ہوتو یہ اذن عام کے منافی ہوگی اور اگر بنیاد فتنے کا اندیشہ یا دشمن سے ضرر کا اندیشہ ہوتو وہ اذن عام کے منافی نہ ہوگی لہٰذا جمعہ صحیح ہوگا ۔
’لاک ڈاؤن‘ یا ’سماجی دوری‘ کی بنیاد اندیشۂ ضرر ہے، نماز و جماعت نماز نہیں ہے۔ لہٰذا باب مسجد بند ہونے کی صورت میں بھی نماز جمعہ صحیح و درست ہوگی۔ شاشن و پرشاشن کی طرف سے پانچ لوگوں کو جمعہ اور جماعت مسجد میں قائم کرنے کی اجازت ہے تو مسلمان اس کا لحاظ کریں۔‘‘
یہ ہے سنیوں کے’ ازہر ہند‘ کے فتوے کا خلاصہ جو ’ازہر مصر‘ کے ہیئت کبارالعلما کے فیصلے سے ماخوذ ہے اور یہاں کے دیوبندیوں کے ’ ازہر ہند‘  کا بھی تقریباً یہی موقف ہے۔
فاقول و باللہ التوفیق وھو خیر رفیق:
اذن عام کا شرط صحت جمعہ ہونا تو ہیئت کبارؔ العلما و سراج الفقہاؔ سب مان رہے ہیں لیکن اس کی ہیئت میں دانستہ یا نا دانستہ اختلاف کر رہے ہیں وہ خود فرماتے ہیں:
’’اذن عام‘  کا مطلب ہے ہر نمازی کو مسجد میں آنے کی اجازت۔‘‘
پھر چار،پانچ افراد ہی کو آنے کی اجازت دینا اور باقیوں کو روکنا ہر نمازی کے لیے اجازت کیسے ہوگئی ؟
تو ان کا جواب ہوگا کہ جیسے اندیشۂ فتنہ کی وجہ سے عورتوں کو اور اندیشۂ ایذا کی وجہ سے مردوں کو روکنا اذن عام پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہاں بھی اندیشۂ تعدیۂ امراض ’کورونا وائرس‘ کے اندیشہ سے روکنا اذن عام میں خلل انداز نہ ہوگا ۔
میں کہتا ہوں وہاں اندیشۂ فتنہ ملحق بالیقین ہے اور موذی بھی معلوم ومتعین جس سے تقلیل جماعت بھی متیقن ہے اور یہاں سب مفقود یا کم از کم موہوم۔ نیز عورتوں، موذیوں کی ممانعت پر ترجیح و تصحیح فقہاء موجود اور ہم پر ان کا اتباع لازم و ضرور، در مختار میں ہے ’’و اما نحن فعلینا اتباع ما رجحوہ و ما صححوہ کما لو افتوا فی حیاتھم ‘‘۔  شامی ؔسے فتاویٰ رضویہؔ میں ہے ’ان الاذن العام ان لا یمنع احد اً ممن تصح منہ الجمعہ‘ اذن عام یہ ہے کہ ہر اس شخص کو نہ روکا جائے جس سے جمعہ کی ادائیگی صحیح ہو کما لا یخفیٰ اسی میں ہے وفی در المختار’یمنع منہ (ای من المسجد ) کل موذ ولو بلسانہ‘ (مسجد سے) ہر اذیت دینے والے کو منع کیا جائے گا کہ روکنا مطابق شرع ہے، منافی اذن نہیں اوراگر ایسا نہیں بلکہ یہ لوگ محض ظلماً بلا وجہ یا براہ تعصب روکتے ہیں تو بلا شبہہ ان کا جمعہ باطل کہ ایک شخص کی ممانعت بھی اذن عام کی مبطل ۔
رب رحمن و رحیم رحمت فرمائے ان فقہائے کرام پر جنہوں نے برسہا برس پہلے خاص مسجد جامع ہی نہیں بلکہ قلعہ و قصر شاہی تک کے لیے اذن عام کا مفہوم سمجھا دیا کہ امیر المومنین قلعہ یا اپنے محل (ایوان امارت ) میں داخل ہو اور دروازہ بند کرلے اور اپنے ساتھ والوں کے ساتھ جمعہ پڑھ لے تو جمعہ نہ ہوگا ۔ (خلاصۃؔ الفتاویٰ ص ۱۴۹) ہاں اگر دروازہ کھولے رہے اور داخلہ کی عام اجازت دے دے تو جائز ہے ۔ در مختار ؔمیں ہے ’ولو فتحہ واذن للناس بالدخول جاز‘ البتہ اذن عام حاصل ہو اور واردین محل پر دروازہ کھلا ہو مگر دشمن کا خطرہ لاحق ہو یا باب محل بند کرنے کا معمول ہو، کسی نمازی کو روکنا مقصود نہ ہو اور کچھ نمازی از خود نہیں آتے اور دروازہ بند کردیا گیا تو اذن عام حاصل مانا جائے گا۔ یہ بندش نمازیوں کے لیے نہیں تھی، اندیشہ خوف دشمن یا  معمول پر مبنی تھی۔ اسی معمول کو فتوے میں تعامل سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اپیلی فتوے میں ’لا للمصلی‘  کا ترجمہ ہی غائب ہے یعنی دروازے کا بند ہونا نمازی کے لیے نہ ہو اپیل تو نمازیوں کو روکنے ہی کے لیے کی گئی ہے اگر چہ پانچ افراد کے استثناء کے ساتھ۔ اب اس پر بھی اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ کا ارشاد عالی ملاحظہ ہو،فرماتے ہیں :
’’اگر اجازت سو پچاس یا ہزار دو ہزار کسی حد تک محدود ہے، اگر تمام جماعات شہر جانا چاہیں نہ جانے دیں گے تو وہ مکان بندش کا ہے۔ اس میں جمعہ صحیح نہیں بدائعؔ میں اشتراط اذن عام کی دلیل میں فرمایا ’یسمی جمعۃ لاجتماع الجماعات فیھا فاقتضیٰ ان تکون الجماعات کلھا ماذونین بالحضور اذناًعاماً تحقیقاً لمعنی الاسم‘ جمعہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں تمام جماعتوں کا اجتماع ہوتا ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ اس میں تمام جماعتوں کو آنے کی اجازت ہو تاکہ نام کے معنیٰ کا ثبوت ہو۔ بدائعؔ کی مذکورہ عبارت سے اذن عام کی شرط کا اس میں مذکور ہو نا ظاہر ہے جسے اعلیٰ حضرتؔ نے اشتراط اذن عام کی دلیل قرار دیا ہے اور خود صاحب بدائعؔ نے اذن عام کے لیے ’النداء للاشتھار‘ کی اصطلاح استعمال فرماتے ہوئے استدلال مذکور فرمایا ہے (۱ص۶۳) مگر اپیلی فتوے میں مفتی صاحب نے اذن عام کا ذکر نہ کرنے والوں میں صاحب بدائع کو بھی شمار فرمایا ہے جو ایک طرف ان کے تعمق نظر پر سوال کھڑا کرتا ہے تو دوسری طرف تحقیق اعلیٰ حضرت کو نظر انداز کرنے کے باوجود انھیں ’عطائے اعلیٰ حضرت‘ کہنا کتنا بجا ہے۔ ایک سوال یہ بھی ہے اب خود اعلیٰ حضرت سے اذن عام کی مختصر مگر نہایت جامع و مانع تعریف ملاحظہ فرمائیں :
’’اذن عام کہ صحت جمعہ کے لیے شرط ہے، اس کے یہ معنی کہ جمعہ قائم کرنے والوں کی طرف سے اور شہر کے تما م اہل جمعہ کے لیے وقت جمعہ حاضری جمعہ کی اجازت ہو۔‘‘
مگر جب ازہر ہند کا ’انوکھا‘ مفتی اعظم شاشن پرشاشن کے دباؤ میں آکر غیر شرعی قہری و جبری فتوے دینے لگے کہ شاشن پرشاشن کے حکم بے جا کی ہر گز خلاف ورزی نہ کی جائے اور بجز پانچ افراد کے وہ بھی سماجی دوری (ایک میٹر فاصلہ) کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی حاضری جمعہ و جماعت کا مرتکب نہ بنے بلکہ اعلان منع عام کردیا جائے کہ آپ کی آبرو خطرہ میں ہے، اس پر عمل درآمد کرانے کے لیے دروازۂ مسجد بھی بند کرلیاجائے تو اذن عام کسی وائرس سے متاثر نہیں ہوگا اور جمعہ کی صحت و تندرستی پر کوئی فرق نہ پڑے گاکہ جراثیم مرض مریض کے بدن سے اڑ کر نمازی کو لگے گا نہ کہ نماز کو اور پانچ افراد کو چونکہ اذن حاصل ہے اور پھر ان کے درمیان میٹر بھر کا فاصلہ کرکے حصار کردیا گیاہے لہٰذا وہ پانچ خوش قسمت ہیں جواس سے محفوظ رہیں گے، جو بچے وہ اپنی قسمت کا رونا روئیں ۔
میں نے ایک امام کو حدیث مذکور فی الفتویٰ کا ترجمہ سناتے ہوئے لاؤڈاسپیکر کے ذریعے یہ اعلان کرتے سنا کہ:  ’’ لاک ڈاؤن کی وجہ سے صرف پانچ لوگ ہی کل جمعہ کے لیے مسجد میں آئیں اور وہ پانچ وہی آئیں گے جن سے آنے کی بات ہو چکی ہے۔ باقی حضرات مسجد میں ہرگز نہ آئیں اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھیں ۔‘‘
بلا شبہہ یہ اعلان اسی مصباح الفتاویٰؔ             کی روشنی میں ہوا جس سے نظام شعار دین یعنی جمعہ و جماعات درہم برہم ہوا۔ کیا کہا جاسکتا ہے کہ یہ اعلان جسے بدائعؔ میں نداء للاشتہارؔ بتا یا گیا اسی لیے ہوا یا اس کے برعکس مخصوص،محدود، معدود پانچ افراد کے علاوہ جملہ نمازیوں کو حاضری مسجد سے روکنے کے لیے۔ لہٰذا یہ نام نہاد اذن عام محض لفظ بے معنی رہا ۔  چنانچہ فتاویٰ رضویہؔ میں ہے:
’’پر ظاہر کہ تحقق معنیٰ اذن کے لیے اس مکان کا صالح اذن عام ہونا بھی ضرور ورنہ اگر کچھ لوگ قصر شاہی یا کسی امیر کے گھر جمع ہوکر باذان و اعلان جمعہ پڑھیں اور اپنی طرف سے تمام اہل شہرکو آنے کی اجازت عامہ دے دیں مگر بادشاہ یا امیر کی طرف سے دروازوں پر پہرے بیٹھے ہوں۔ عام حاضری کی مزاحمت ہو تو مقیمین جمعہ کا وہ اذن عام محض لفظ بے معنیٰ ہوگا۔ وہ زبان سے اذن عام کہتے اور دل میں خود جانتے ہوں گے کہ یہاں اذن ِعام نہیں ہو سکتا۔‘‘ فقہائے کرام نے تو ’لا للمصلی‘ فرمایا تھا ۔رہا عدو تو وہ یہاں مفقود اور اگر اس سے مراد کوروناؔ ہے تو اسے روکنے کے لیے نمازیوں کو روکنا ’تحقیق جدید‘ کے نام پر ’خدمت تجدید‘ہے یہ بھی تحقیق طلب ہے کہ آخر یہ دشمن نمازیوں پر وہ بھی مسجد میں اور علی الخصوص جماعت کے ساتھ ادائیگی ہی پر حملہ آور ہوتا ہے، گھر میں نہیں۔تو پر ظاہر کہ یہ محض ظن و وہم اور گمان فاسد ہے اس کے سوا کچھ نہیں ۔ البتہ جس کا مبتلائے مرض ہونا ثابت ہو تو وہ آپ معذور ہے۔ اسے شارع رؤف ورحیم نے ترک جماعت کیا حاضری مسجد سے رکنے کی اجازت و رخصت دی ہے اور اس تقدیر پر کہ فتوائے زیر بحث میں تعدیہؔ کا قول کیا گیا ہے تو پانچ افراد کی اجازت میں کون سی نصؔ ہے کہ ان میں تعدیہ نہ ہوگا، میٹر بھر کا فاصلہ مانع تعدیہ ہے۔ اگر ایساہے تو اس پرکوئی معقول و مقبول دلیل ہے؟ بالفرض ایسا ہے تو اسی پابندی کے ساتھ دوسرے نمازیوں کو اجازت کیوں نہیں؟ حالانکہ قطع صف دونوں صورتوں میں لازم اوراس پر وعید شدید وارد  قال علیہ الصلاۃ و السلام ’من قطع صفاً قطعہ اللہ۔‘‘
بحث عذر و علت :
بارش،کیچڑ،تاریکی،سردی، نابینائی اور مشقت و بیمار ی کے باعث گھروں میں نماز کی اجازت سے جمعہ و جماعات کی پابندی اور مساجد کی تالا بندی پر استدلال قیاس مع الفارق اور مصالح شرعیہ دینیہ سے ناواقفی کی دلیل ہے۔واقف فن پر مخفی نہیں کہ درج باب احادیث کا بنیادی مقصد محدثین کرام علیھم الرحمۃ والرضوان نے ترجمۃ البابؔ کے ذریعہ واضح فرمادیا ہے ۔ چنانچہ صحیحین ؔمیں یہ عنوان ملاحظہ ہو ’باب الرخصۃ فی المطر والعلۃ ان یصلی فی رحلہ‘ یہ باب ہے بارش اور کسی عذر کی بناپر گھر میں نماز پڑھ لینے کی اجازت کے بیان میں اس کے تحت علامہ عینی ؔعمدۃ القاری میں یوں شرح بیان فرما رہے ہیں ۔ ’ای ھذا باب فی بیان الرخصۃ عند نزول المطر وعند حدوث العلۃ من العلل المانعۃ من حضور الجماعۃ،مثل الریح الشدید والظلمۃ الشدیدۃ والخوف فی الطریق من البشر او الحیوان و نحو ذالک‘ قدرے اضافہ کے ساتھ مفہوم وہی ہے، اس میں حاضری جماعت سے باز رہنے کے اعذار شرعیہ کا ذکر موجود ہے، تو نسبتِ منع اعذار مانعہ کی طرف ہے نہ کہ شارع کی طرف۔ اس کے باوجود کوئی فضیلت حاضری مسجد و شرکت جماعت پر حریص ہو تو اسے شریعت باز رہنے کا حکم نہیں فرماتی۔ اس سے ظاہر ہوا کہ حاضر ہو تو عزیمت پر، نہ ہو تو رخصت پر عامل ٹھہرے گا۔ نہ اس میں مواخَذ نہ اس میں آثم ۔ اس کے برعکس مسئلۂ زیر بحث میں مسجد میں جانا، جماعت کرنا، جمعہ میں بھیڑ لگانا عزیمت نہیں، فضیحت اور لائق تعزیر عمل قرار پائے گا ۔رخصت وا لی صورت میں بھی بعض حضرات نے مطلق بارش کا اعتبار نہیں کیا بلکہ تیز بارش کا لحاظ فرمایا ہے۔ اسی میں ہے ’واعتبر بعضھم شدۃ المطر‘ توثابت ہوا کہ موجودہ لاک ڈاؤن کا قیاسؔ عذر و علت والی احادیث پر ہرگز ہرگز درست نہیں، نیز ان احادیث سے کسی فرد خاص یا اہل محلہ کے لیے ہی رخصت نکلتی ہے، پورے شہر یا پورے ملک یا سارے جہان میں علی العموم معذور و غیر معذور کل کے لیے بندش کس جملہ سے ثابت ہے؟ وہ بھی جامع جماعات، شعار اسلام خاص جمعہ کے لیے؟ اور اگر کوئی ہٹلر صفت حاکم ایسا ارتکا ب جرم کر بیٹھے اور بد قسمتی سے ارباب قضاء و افتا ء بھی رضاکارانہ یا محکومانہ نام نہاد فتوے صادر کردیں یا کسی بھی خلاف شرع فرمان کی حمایت میں اپیلیں جاری کردیں تو مسلمانوں پرایسے فرمان وبیان کی پابندی لازم ہوگی؟ حاشا ہرگز نہیں ’قال تعالیٰ ومن اظلم من منع مساجد اللہ ان یذکر فیھا اسمہ وسعیٰ فی خرابھا‘ اور فرماتا ہے ’تعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان‘ یہیں سے ازہر مصر کے فیصلہ کا فیصلہ بھی ہوگیا اور اہل منصب پر مخفی نہیں کہ ازہرؔ ہند کا فتویٰ بھی اسی فیصلہ کا چربہ ہے ۔
کچھ بے لگام تو ایسے ہیں کہ انہوں نے تاریخی حوالہ سے اس بندش بے جا کا جواز ثابت کرنے کی سعیٔ لا حاصل کی ہے کہ ۴۴۹ھ میں اندلسؔ، آذربائیجانؔ، کوفہؔ وغیرہ میں اور ۴۴۸ھ میں مصرؔ میں مساجد جماعتوں سے خالی ہوگئیں یا تالے لگ گئے، یوں ہی ۸۲۷ھ میں امام مکہ کے ساتھ صرف دو آدمی بچے تھے،  یوں ہی فلاں سنہ میں یہ ہوا فلاں سنہ میں وہ ہوا    الخ ۔
ان میں سے کسی مقام کے بارے میں یہ نہیں لکھا گیا کہ وہاں حاکم و فرماں روا کی طرف سے بندشیں عائد کی گئیں،  نہ کسی امیر و خلیفہ یا قاضی و مفتی اہل فتویٰ کا کوئی فیصلہ و فتویٰ نقل کیا گیا۔ ہاں از خود نمازی گھٹتے گئے تا آنکہ کہیں جماعت کے لائق نمازی نہ رہے یا کہیں صرف دو مقتدی بچ گئے  ع ببیں تفاوت رہ از کجا ست تا بکجا؟    افراتفری کے ماحول میں جماعت بند ہوگئی یا مسجدیں غیر آباد ہوگئیں یہ اور ہے اور بزور اقتدار بند کرانا  یا بذریعہ فتویٰ پابندی لگانا اور ہے۔ پھر فقہ کا مسئلہ تاریخ سے حل نہیں ہوتا جیسے فلسفہ و نحو سے حل نہیں ہو سکتا۔ ہاں بعض اوقات بطور آلہ اس سے بھی مددلی جا تی ہے۔
پھر مان بھی لیا جائے کہ وہ پابندی وہاں کے والی سلطنت کی طرف سے عائد ہوئی تھی یا قاضی و مفتی کے فیصلہ و فتویٰ پر لگی تھی تو کیا اس پر قیاس کرکے کسی خلاف شرع امر کو جائز و درست قرار دیا جائے گا؟ اسے موجودہ دور کے تناظر میں دیکھئے۔ کل یہ بھی تو تاریخ کا حصہ بن جائے گا مگر عندالشرع یہ ہرگز سند جواز نہیں کہ ’لا یوخذ بعمل العالم‘ کسی عالم کے عمل سے مسئلہ کا استدلال نہیں ہوسکتا، اکبرؔا کفر نے تو خاص ’دین الٰہی‘ جیسے مبارک نام پر ان گنت خلاف دین کارنامے انجام دیے۔ تاریخ کا حصہ تو وہ بھی ہے ۔ یزیدؔ پلید کے دور حکومت میں حرمینؔ طیبین اور خود کعبہؔ معظمہ و روضۂ اطہر کی سخت بے حرمتیاں ہوئیں۔ مسجد ؔکریم میں گھوڑے باندھے، ان کی لید اور پیشاب ممبرؔ اطہرپر پڑے، تین دن مسجد نبویؔ بے اذان و نمازؔ رہی تو اسے دلیل جواز بنانا درست ہوگا؟ ہرگز نہیں۔
تاریخی واقعات و نظائر اور بارش و کیچڑ وغیرہ کی صورت میں احادیث رخصت کو بنیاد بناکر حالیہ فیصلہ و فتوے کو درست قرار دینے والے،صلوٰۃ الخوفؔ اور اس کے احکام قرآنی سے نابلد ہیں یا قصداً اغماض و چشم پوشی کے شکار ہیں ۔ انھیں لنگڑی لولی اور معمولی عذر و علت کے سہارے مسجدوں میں تالا بندی اور جماعت واجبہ کی نا معقول پابندی تو سمجھ میں آرہی ہے مگر سفر جس میں چار رکعاتی فرض نمازوں میں حکم قصرؔ ہے اگر دا نستہ چار پڑھے تو گناہ گار بنے اور سفر برائے جہادکہ دونوں طرف یعنی لشکر اسلام اور افواج کفار کی طرف سے مورچہ بندی ہے۔ ہرایک مسلح فوج مد مقابل پر اقدام و دفاع کے لیے تیار ہے۔ کسی آن حملہ ہوسکتا ہے اور وقتی نمازوں کے لیے ترک جماعت کا عذر معقول و مقبول بھی موجود۔موقعؔ غزوہ ذات الرقاع کا ہے۔ وقت، ظہرؔ کا، امامؔ، امام الانبیاءؔ، مقتدی مجاہدین صحابہ، ان سارے اعذار صحیحہ کے باوجود ترک جماعت نامنظور۔ دشمنان اسلام نے اس موقع کو ہاتھ سے جاتا دیکھ کر نماز عصر میں حملہ کی سازش رچی کہ جان و مال و اولاد اور ماں باپ سے بھی نماز کو زیادہ عزیز سمجھنے والی یہ قوم جب اس کے لیے عصر میں کھڑی ہو تو پوری قوت کے ساتھ حملہ کردینا ہے۔ ایسے سنگین حالات میں بجائے اس کے کہ ترک جماعت کی رخصت کے لیے وحی آتی، رب کریم نے اپنے حبیب رؤف و رحیم کے اہتمام جماعت کی نہ صرف تائید کی بلکہ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک نئی ترکیب کے ساتھ اپنی وحی کا نزول فرمادیا    قال تعالیٰ ’واذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوٰۃ فلتقم طائفۃ منھم معک ولیاخذوااسلحتھم، فاذا سجدوا فلیکونوا من ورائکم ولتات طائفۃ اخری لم یصلوا فلیصلوا معک ولیاخذوا حذرھم و اسلحتھم (الاٰیۃ)  اور اے محبوب! جب تم ان میں تشریف فرما ہو پھر نماز میں ان کی امامت کرو تو چاہیے کہ ان میں ایک جماعت تمہارے ساتھ ہو اور وہ اپنے ہتھیار لیے رہیں۔ پھر جب وہ سجدہ کرلیں تو ہٹ کر پیچھے ہوجائیں اور اب دوسری جماعت آئے جو اس وقت تک نماز میں شریک نہ تھی، اب وہ تمہارے ساتھ مقتدی ہو ں اور چاہیے کہ اپنی پناہ اور اپنے ہتھیار لیئے رہیں ۔
بخوف طوالت نماز خوف کا طریقہ یہاں چھوڑا جا رہا ہے۔ اس کے لیے کتب مسائل سے رجوع کیا جائے۔ یہاں اس کے ذکر کا مقصد یہ ہے کہ اگرلاک ڈاون کی حمایت میں فتوے صادر کرنے والے اور اس کی تائید کرنے والے اپنی زبانوں پر بھی لاک لگا چکے ہیں تو کم از کم آنکھیں تو نہ موندیں کہ پنج گانہ کی جماعت کے لیے یہ حکم احکم الحاکمین نازل ہوا۔ پھر جمعہ جو جامع جماعات ہے اس کا اہتمام تو ان کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے ۔
یہ بھی قابل غور ہے کہ اس قانون کے نفاذکا تعلق صرف اقلیتی طبقہ سے ہے کیونکہ اکثریتی طبقہ اور خاص کرحکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والوں کی ایک دو نہیں سیکڑوں تصویری مثالیں موجود ہیں کہ ان کا سیاسی ومذہبی پروگرام طے شدہ پلاننگ کے تحت انجام دیا جارہا ہے۔ ان پر کوئی تادیبی و تعزیری کارروائی دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے بلکہ اس مرض کو ہی مسلمان قرار دے کر اسے گھس پیٹھیا قرار دیا جارہا ہے اور اس کے ساتھ مسلمان بھی ظلم و ستم کا نشانہ بن رہا ہے۔ اس طرح علاج مرض کا نہیں مسلمان کا ہو رہا ہے۔ اس امتیازی سلوک پر دارالافتا ءؔ بھی مہر بلب ہے اور دارالقضاء بھی پیران طریقت بھی خاموش ہیں اور دانشوران ملت بھی فیا للعجب ۔واللہ تعالیٰ اعلم
بحث اس مر ض میں مرنے والوں کی تجہیز و تکفین اور ان کے جلانے کی :
(۴) اسلام نے جس طرح زندگی میں ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کا حکم بتایا ہے، مرنے کے بعد بھی زندوں پر مردوں کے حقوق بتا ئے ہیں، مثلا ً مریض کی عیادت، جنازہ کی شرکت وغیرہ۔ نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا ’حق المسلم علیٰ المسلم خمس۔ وعیادۃ المریض و اتباع الجنازۃ‘ اور فرمایا ’اذا مرض فعُدہ واذا مات فاتبعہ‘ جامع صغیر کی شرح فیض القدیر میں ہے ’ای اتبع جنازتہ حتیٰ تصلی علیہ فان صحبتہ الی الدفن کان اولیٰ‘ اور (وان مات شیعتہ) الی المصلی ثم الی القبر‘ ص ۴۷۸، یعنی جب کوئی بیمار پڑے تو عیادت کرو اور وفات پاجائے تو جنازے میں شرکت کرو اور قبر تک جاؤ ۔ لہٰذا عام مسلمانوں کی طرح کوروناؔ، طاعونؔ وغیرہ امراض میں جاں بحق ہونے والے مسلمانوں کو غسل دینا،کفن پہنانا، ان کی نماز جنازہ پڑھنا اور مطابق شرع دفن کرنا بھی فرض کفایہؔ ہے کہ کچھ نے یہ امور انجام دے دئیے، سب بری ورنہ وہاں کے بالغین واقف حال حق العبد و حق اللہ میں گرفتار۔ ان پر فرض کہ جب تک بدن میت کا سالم ہونا مظنون ہو قبر پر نماز پڑھیں اگر چہ غسل و کفن شرعی نہ دیا گیا کہ اب مجبوری ہے اور سلامتی بدن میت کا امر اختلاف موسم و حال زمین و حال میت سے جلدی و دیر میں مختلف ہوتا ہے۔
ملاحظہ:  بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ اس مرض میں مرنے والا شہید ہے اس لئے اسے غسل دینے کی ضرورت نہیں ۔ ایسے لوگوں کو حدیث میں آتش دوزخ پر جری فرمایا گیا ہے، ’اجراء کم علی الفتیا اجراء کم علی النار‘ لہٰذا بے اہلیت،جرأت افتاء نہ کریں۔
غسل نہ دینے کا حکم ’شہیدفقہی‘ سے متعلق ہے یعنی جو عاقل بالغ طاہر مسلمان ظلماً آلۂ جارحہ سے قتل کیا گیا ہو اور نفس قتل سے مال واجب نہ ہوا ہو، نہ دنیا سے متمتع ہوا ہو۔تنویر الابصارؔ میں ہے ’ھو کل مکلف مسلم طاہر قتل بجارحۃ ولم یجب بنفس القتل مال‘ ۳ص ۱۵۸
اس میں حکمت یہ ہے کہ موت سے انسان نجس حکمی ہوجاتا ہے اور شہادت مانع حلول نجاست حکمیہ ہے ۔ لہٰذا ضرورت غسل نہ رہی ۔ اور اگر قبل شہادت اس پر غسل فرض تھا تو بعد شہادت بھی اسے غسل دیا جائے گا ۔ اس لیے حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرشتوں نے بحکم قدرت غسل دیا اور وہ غسیل الملائکہ کہلائے ۔
’شہید حکمی‘ کا معاملہ ایسا نہیں ۔ لہٰذا ہر صورت میں حکم غسل برقرار رہے گا۔ بدائع الصنائع ۲ ص ۶۹۔ رہی فضیلت و ثواب شہادت کی سرفرازی تو وہ اس کے ابتلاء و آزمائش کا صلہ ہے ۔   
اور میت کا جلانا کسی طرح بھی جا ئز نہیں کہ تعذیبؔ بالنار حق رب النار ہے یہ اور بھی بد تر گناہ، اوریہ عذر کہ اس کے جراثیم اڑکر لگتے ہیں یہ شرعاً تو باطل و مردود ہے ہی جو سطور بالا میں گزرا، عقلاً بھی درست نہیں۔ قبرستانوںمیں جذامؔ و کینسرؔ( نسأل اللہ العفو والعافیۃ )  و دیگر امراضؔ وبائیہ کے مردے دفن ہوتے آئے اور قرب مقابر کثیر تعداد میں لوگ رہتے بستے ہیں۔ ان میں کچھ کا تو پیشہ ہی تکیہ داری ہے اور کچھ کی’ مجاورت‘۔ ان کی صحت متاثر نہیں ہوتی۔
یہاں سے وہ واہمہؔ  بھی دور کرلیا جائے جو ایک فتوے میں میت سے پانچ میٹر کا فاصلہ بنائے رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
اسی طرح طاعونؔ نامی ایک پاکسانی کتاب میں ہے کہ:
’’مریض طاعون کی لاش مرض کو پھیلانے کے لیے ایک مرکز اور جڑ کا کام دیتی ہے ۔۔۔۔اس لیے مناسب ہے کہ رسوم مذہبی جو تدفین و تکفین کے متعلق ہیں ان کو حتی الوسع بہت اختصار کے ساتھ عمل میں لا یا جائے ۔ قبر سات فٹ گہری کھودی جائے اور مناسب ہے کہ قبر میں کچھ چونا بھی ڈالا جا ئے۔‘‘
نمازؔ میں نمازی میٹر بھرکے فاصلہ پر، جنازہؔ میں میت سے پانچ میٹر کے فاصلہ پر، قبر کی گہرائی سات فٹ۔ یہ ہدایات کہاں سے لی گئیں ان کا کوئی حوالہ نہیں۔ یہ اگر انگیریز چنگیز ڈاکٹروں کی تنبیہات ہیں تو وہ ہمارے لیے واجب العمل نہیں اور اب تونئی تحقیق نے اسلامی رسم و رواج کی تائید کردی۔ ملاحظہ ہو W.H.Oورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن (عالمی ادارۂ صحت ) کی ہدایات،من جملہ ایک یہ ہے :
عوام یہ غلط فہمی دور کرلیں کہ کورونا وائرس کے سبب مرنے والے کی لاش جراثیم رسیدہ ہے اور اس سے دور رہنا چاہیے۔ انسانی لاش کا احترام کیا جائے اور عزت و احترام کے ساتھ آخری رسومات ادا کی جائیں ۔
یہاں سے ثابت ہوا کہ ہمارے بعض علما ء بھی فساق وفجار، بے دین و عیار ڈاکٹروں کی غیر ضروری ہدایات کو اپنی سادہ لوحی سے درست مان بیٹھے اور مآل و نتائج پر نظر رکھے بغیر اپنے فتاوے اور اپیلوں میں ان غیر شرعی و غیر ضروری باتوں کا ذکر کرنے لگے جس کا وائرس مسجد سے قبرستان تک جا پہنچا۔  ولا حول ولا قوۃالا باللہ العلی العظیم
قبر کی گہرائی نصف قد، اور قد برابر ہوتو اور اچھا، جیسا کہ رد المحتار میں ہے ’و ان زاد الیٰ مقدارقامۃ فھو احسن‘کما فی الذخیرۃ ’ وھذا حد العمق والمقصود منہ المبالغۃ فی منع الرائحۃ و نبش السباع‘  اور یہ گہرائی کی حد ہے اس کا مقصد بو روکنے اور درندوں کے اکھاڑنے سے بچانے میں مبالغہ ہے۔ لہٰذا سات فٹ کی تعیین سے مقصد یہ ہو اور یہی ہے بھی تو وہ اس سے پورا ہو گیا۔ اب اس پر زیادت وہم فاسد اور ایذائے میت کہ جس میت کی نماز میں پانچ میٹر کی دوری بنائے رکھنے کا حکم دیا جائے، جس کی تکفین کے لیے مختلف لوشن کے استعمال کی ہدایت دی جائے، اسے ضرورت سے زیادہ گہری قبر میں اتارنے کے لیے کون تیار ہوگا؟ پھر جے۔سی۔بی یا اس جیسی کسی مشین کے ذریعے ہی قبر میں میت کو گرایا جائے گا جیسا کہ خبروں میں بتایا گیا۔ لہٰذا یہ بھی طریقِ اسلام کے خلاف ہے کہ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں ’ان المیت یتأذی مما یتأذی منہ الحی‘ جس چیز سے زندہ کو ایذا ہوتی ہے اس سے مردہ کو بھی ایذا پہنچتی ہے ۔واللہ تعالیٰ اعلم
لاک ڈاؤن :
(۵)  جواب اول میں عدم تعدیہ کی بات بتمام وکمال گزر چکی اور یہ گزر چکا کہ احتیاطی تدابیربھی عمل میں لائی جائیں اور جو بھی قانون فرائض و واجبات اور شعار دین سے متصادم نہ ہوں ان کی پاسداری ضرور کی جائے لیکن جو غیر ضروری اور امتیازی قانون مذہبی تشخص پر حملہ آور ہو وہ نہ شرعاً قابل قبول نہ عقلاً نہ قانوناً ۔
شرعا تو اس لیے نہیں کہ اس کی آڑ میں عبادت پر روک لگانا ہے یہاں تک کہ میت کی آخری رسومات بھی نشانہ پر ہے، چنانچہ بعض مرحومین کو بلا غسل و کفن اور بغیر جنازہ و دفن جلانے کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں ۔ (نسئل اللہ العفو والعافیۃ ) تو ایسا قانون حکم منکر رکھتا ہے خواہ وہ کسی ملک میں ہو اور ازالۂ منکر بقدر قدرت و استطاعت فرض اور ازالۂ منکر نہ کرسکے تو کم ازکم اس پر عمل کرنے سے بچنا ضروری اور یہ بھی نہ ہوتو منکر کو منکر جانے اسے معروف نہ سمجھے قال علیہ الصلوٰۃ والسلام ’من رای منکم منکراً فلیغیرہٗ بیدہٖ فان لم یستطع بلسانہٖ فان لم یستطع بقلبہٖ و ذالک اضعف الایمان ۔
عقلاً : اس طرح کہ کوئی ملک مثلاً پڑوسی ملک پاکستان ایسے موقع پر اپنی کا بینہ یا ڈاکٹروں کے مشورہ سے وہاں کے ہر شہری پر ختنہ لازم کردے تو کوئی ذی شعور اسے درست قرار دے گا؟ کیا وہاں کا اقلیتی طبقہ اسے قبول کرے گا؟ہرگز نہیں۔
قانوناً:  اس لیے غلط ہے کہ یہ ملک جمہوری ہے اس کے دستور میں ہر مذہب کے پیروکا ر کو اپنے مذہبی تشخصات پر عمل کرنے کی اجازت ہی نہیں بلکہ حق حاصل ہے ۔
لاک ڈاؤنؔ کی مطلق مخالفت ہر گز نہ کی جائے۔ جہاں مذہبی تحفظات و تشخصات مجروح نہ ہوں وہاں پوری طرح پابندی کی جائے مگر حقیقت حال یہ ہے کہ اس میں بھی امتیاز برتا جارہا ہے۔ اکثریتی طبقہ کو کھلی چھوٹ ہے۔ خود قانون ساز ہی قانون شکنی کرتے نظر آئے اور اپنی جماعت پر شادی ہوکہ برتھ ڈے،  رتھ یاترا ہو کہ رام مندر کا شیلا نیا س ستیا ناس،تختہ پلٹ ہو یا تخت نشینی،  ہر جگہ پہلے جیسی کھلی چھوٹ،مکمل آزادی اور ان سب سے بھی جی نہ بھرا تو تھالی، تالی، دیپ جلائی اور دوسری طرف ڈرے سہمے سات،آٹھ بچے، جوان بوڑھے دروازۂ مسجد بند کرکے جمعہ پڑھیں تو ان پر بے رحمی کے ساتھ لاٹھی ڈنڈے     فیا حسرتاہ ۔ 
اگریہ نسخہ صحیح تھا تو چینؔ جیسے بے دین ملک میں جہاں برسوں سے نماز و روزہ پر پابندی تھی، اس نے نہ صرف نما ز کی اجازت دی بلکہ ان کے عملہ شریک نماز ہوئے، خود اذانیں دیں، ٹرافک کا نظام چاک و چوبند کیا اور ائمہ و مصلیان مسجد سے دعائیں کرائیں حتی کہ ٹرمپ جیسے مغرور حکمراں بھی محفل قرآن خوانی میں شریک رہ کر دست بدعا نظر آئے ۔
یاد رہے کہ کوئی سچا عالم دین نہ اپنے دین کا سودا کر سکتا ہے نہ اپنے ملک کا بلکہ اس کا فرض منصبی ہے کہ وہ اپنے دین کے ساتھ اپنے وطن عزیز کی حفاظت و صیانت بھی فرمائے۔ چناچہ تاریخ شاہد ہے کہ ہمارے اسلاف و اکابر نے جس طرح دین کے تحفظ کا فریضہ انجام دیا اسی طرح ملک کی بقا کے لیے قربانیاں بھی پیش کی ہیں۔ لہٰذا کسی بھی طرح نہ ان پہ شک و شبہہ ہونا چاہیے نہ ہی امتیازی سلوک۔ ہر مذہب کی کچھ مذہبی حدود ہوتی ہیں۔ مذہبی رہنما کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ہم مذہب کو ان حدود کی آگاہی دے جن کی خلاف ورزی پر وہ قابل حد و لائق تعزیر نہ ہو۔ لہٰذا  اس  فریضہ ٔ دین کی انجام دہی کا مطلب ہرگز ہرگز ملک دشمنی نہیں۔ مذکورہ بالا سطور میں جو کچھ بیان ہوا وہ اسی فریضہ کی ادائیگی ہے جو کتاب و سنت کی روشنی میں تحریر ہوئے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم ۳
کلمۃ الاختتام:
دریں اثناء خاتم الاکابر،ممتاز الفقہا فضیلۃ الشیخ استاذالعلما محدث کبیر حضرت علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری رضوی مد ظلہ العالی کی تصدیق وثیق سے مزین’اذن عام‘ پر سیف بے نیام حضرت العلام مفتی شمشاد احمد مصباحی مدرس جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی کی تحقیق انیق اور اسی موضوع پر ترجمان رضویت ناشر مسلک اعلیٰ حضرت،حضرت مولانا مختار احمد رضوی بہیڑوی کا جواب لا جواب ملاحظہ ہوا اور زیغم اہلسنت حضرت علامہ مفتی محمد آصف جلالی ’پاکستان‘ کا بیان با برہان بھی سامعہ نواز ہوا جس سے اندازہ لگا کہ ع، ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔
مولیٰ تعالیٰ ان سب کے ظلال پر جمال کو دراز فرمائے، ساتھ ہی دعا ہے کہ دوسرے علمائے کرام کوبھی اظہار حق کی توفیق رفیق دے اور ان سب کے ساتھ ہر بندۂ با ایمان کو بلا و وبا سے اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔ آمین بجاہ طٰہٰ و یٰسین
میں اپنی اس چھوٹی سی کاوش کو اپنے پیر و مرشد حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہٗ کے نام معنون کر تا ہوں اور اس کا نام ۔
البحث التام فی التعدیۃ والاذن العام
معروف بہ
کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن
رکھتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ شرف قبولیت عامہ سے مشرف ہو ۔  فالحمد للہ علیٰ توفیقہٖ والصلاۃ والسلام علی حبیبہ و طبیب خلقہ وعلیٰ اٰلہٖ و صحبہ اجمعین و بارک و سلم ۔برحمتک یا ارحم الراحمین

کتبہٗ:  محمد مطیع الرحمن غفرلہٗ رضوی
رضوی دارالافتاء جامعۃ الخضرا،مرون،مظفر پور
۱۴ ؍ شعبان المعظم ۱۴۴۱ھ بروز جمعرات
بمطابق
۹ ؍اپریل ۲۰۲۰ء


Bahar e Shariat Mukammal Ghar Baithe Discount Hadiye Me Hasil Karne Ke Liye Niche Click Karen.

Don`t copy text!