ہاشمی میاں نے 13 نومبر 2000 ء کو ممبئی کے اخبار روزنامہ ہندوستان میں انٹرویو دیا تھا جس میں سیدنا اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان کی تحقیقات کو ان کا ذاتی مسلک اور مسلک مختار کہا تھا اور یہ کہا تھا کہ اس سے اختلاف جائز ہے۔ (معاذاللہ)
اسی طرح انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ:
“اگر رضا اکیڈمی اعلیٰ حضرت کو کسی نئے مسلک کا بانی باور کرانا چاہتی ہے تو یہ خطرناک نعرہ ہے۔”
ہاشمی میاں کے ان بیانات کے خلاف رضا اکیڈمی نے سخت ایکشن لیا تھا اور اسی اخبار روزنامہ ہندوستان کے 16 نومبر کے شمارے میں ایک بیان شائع کروایا تھا جس کے عنوان (ہیڈنگ) میں رضااکیڈمی کے جنرل سکریٹری محمد سعید نوری صاحب نے ہاشمی میاں کے بیان کے بارے میں کہا تھا کہ:
“◾یہ اعلیٰ حضرت پر تبرہ بازی ہے اور ہاشمی میاں غیرمقلدوں کی زبان بول رہے ہیں۔ ◾خود کو حضرت مخدوم اشرف سمنانی کے شجرہ نسب سے جوڑنے والے ہاشمی میاں عرس کے موقع پر مزار شریف پرقدم نہیں رکھ سکتے۔”
سعید نوری صاحب نے مزید کہا کہ ◾”اگر” کا لفظ ایسا ہے کہ اس کا سہارا لے کر کسی کو کچھ بھی کہا جاسکتا ہے۔ مثلاً کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ “زید نے اپنے طالب علمی کے زمانے میں اگر سائیکل چوری کی تھی تو کیا حکم ہے؟” اس طرح ہاشمی میاں صاحب بھی محفوظ نہ رہ سکیں گے۔” (خیال رہے کہ سائیکل والا واقعہ ہاشمی میاں کے ہی بارے میں مشہور ہے، اسی لئے سعید نوری صاحب نے اس کی طرف اشارہ کیا)
محمد سعید نوری نے مزید کہا کہ ◾”ہاشمی میاں صاحب فرماتے ہیں کہ حنفی مسلک سے انکار جائز ہے، اس کا مطلب یہ کہ ہاشمی میاں نے انکار اور اختلاف کا فرق ہی نہیں سمجھا ہے، یا سمجھا ہے مگر تجاہل عارفانہ کے بھیس میں مسلکِ حنفی پر یہ چوٹ کَسِی ہے۔ ہر صاحبِ عقل و دانش جو مذہبی شعور رکھتا ہے، یہ جانتا ہے کہ مذہبِ حنفی کا وجوب تواتر سے ثابت ہے۔ اس سے انکار نہیں کرے گا مگر کوئی خام خیال، عقل سے بیگانہ۔”
انہوں نے مزید کہا کہ ◾”ہاشمی میاں صاحب یہ کہتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت کے مسلکِ مختار سے اختلاف جائز ہے تو کیا ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو بھی اختلاف کا حق ہے؟ یا اس کیلئے جید عالم دین، اہل نظر کے دلائل ہونا ضروری ہیں؟ آج ہر غیر مقلد یہ راگ الاپتا ہے کہ حنفی مذہب سے اختلاف جائز ہے، یوں ہی شافعی، حنبلی، مالکی مذہب سے بھی اختلاف جائز ہے اوریہ کہہ کر وہ اپنے لئے اختلاف کا حق ثابت کرتا ہے۔ ٹھیک وہی بولی ہاشمی میاں صاحب بول رہے ہیں کہ پہلے اسکی گنجائش پیدا کردی جائے کہ اعلیٰ حضرت کے مسلک مختار سے اختلاف جائز ہے تو پھر خود بخود لوگوں میں یہ کہنے کی جرات پیدا ہوجائے گی کہ ہم اعلیٰ حضرت سے اختلاف رکھتے ہیں۔”
محمد سعید نوری نے مزید کہا کہ ◾”اعلیٰ حضرت نے رافضیوں کے رد میں کتابیں لکھیں اور ہاشمی میاں کی رافضیوں سے رشتہ داری ہے۔ اسی طرح اعلیٰ حضرت نے فوٹو کے رد میں کتاب لکھی، یہ (ہاشمی میاں) فوٹو دھوم دھام سے کھنچواتے ہیں اور اعلیٰ حضرت کی شان میں اس طریقے کے جملے استعمال کرکے وہ اپنے والد ماجد حضرت محدث اعظم کے مسلک سے بھی ارتداد کررہے ہیں۔ ہاشمی میاں نے جن مسائل کو اعلیٰ حضرت کا ذاتی مسلک کہہ کر تبرہ بازی کی ہے، حق یہ ہے کہ وہ اعلیٰ حضرت کے بے مثال علمی و تحقیقی مسائل تھے، جیسے نوٹ مال ہے، ثمن زر نہیں۔ منی آرڈر کرنا جائز ہے، سود نہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ کیا یہ اعلیٰ حضرت کا صرف ذاتی مسلک ہے اوراس سے اختلاف عقل و دانش سے بے گانگی نہیں ہے؟”
انھوں نے مزید کہا کہ ◾”ہاشمی میاں صاحب اپنا شجرہ نسب مخدوم اشرف سمنانی سے جوڑتے ہیں جبکہ ان کے عرس مبارک کے موقعہ پر تین روز تک یہ مزار شریف پر قدم بھی نہیں رکھ سکتے جبکہ وہاں کے سجادہ نشینوں میں حضرت فخرالدین اشرف صاحب، حضرت مثنٰی میاں صاحب اور حضرت کمیل اشرف صاحب ہیں۔”
اس تعلق سے مزید تفصیل اور ثبوت دیکھنے کیلئے نیچے کِلک کریں
مولوی ہاشمی کچھوچھوی اور اس کے چند ساتھیوں نے نبیرہ اعلیٰ حضرت مفسر قرآن حضرت علامہ مولانا ابراہیم رضا خاں عرف جیلانی میاں رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (جو منانی میاں کے والد ہیں) ان پر ایک سازش کے تحت غلط طور سے حکم کفر لگوایا تھا اور آج تک اپنی اس حرکت سے رجوع نہیں کیا۔ اس کے باوجود منانی میاں مولوی ہاشمی کو اپنے اسٹیج پر بلا رہے ہیں اور اس کیلئے اشتہار اور پوسٹر بھی شائع کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علامہ سید حسینی میاں صاحب قبلہ نے منانی میاں سے توبہ کا مطالبہ کیا ہے کیا ہے۔ تفصیل دیکھنے اورسننے کیلئے کِلک کیجیے۔
مولوی ہاشمی نے سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی شان میں بہت گستاخیاں کی ہیں۔ اسی طرح منانی میاں کے نانا یعنی حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ اور دیگر بزرگوں کی شان میں بھی خوب توہین کی ہے۔ اسی کی آواز میں سننے کیلئے کِلک کیجیے:
اس تعلق سے مزید تفصیل ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ پیش کی جائے گی۔ اس کیلئے آپ ہمارے واٹس ایپ گروپ میں ضرور شامل ہوجائیں:
کیا آپ نے کِلکِ رضا کا تعاون کیا؟
اگر نہیں تو اِس طرف بھی کچھ توجہ کیجیے کیونکہ کسی بھی مشن کو جاری رکھنے کیلئے اخراجات کی ضرورت پڑتی ہے!اس کے بغیر کام کرنے کی رفتار کم ہو جاتی ہے اور ہر منصوبے پر عمل نہیں ہوپاتا۔ نیچے بٹن پر کِلک کریں:-
مولوی ہاشمی کے بڑے بھائی سید مدنی میاں صاحب نے وہابی کا ذبیحہ جائز و حلال کہہ دیا! (معاذاللہ)
سید مدنی میاں صاحب سے سوال ہو ا کہ وہابی کا ذبح کیا ہوا (گوشت وغیرہ) کھانا کیسا ہے؟
اس کے جواب میں انھوں نے کیا کہا؟
ان کی آواز میں سنیے!
سید مدنی میاں صاحب کے مذکورہ بیان کے تناظر میں حضرت علامہ مفتی شمشاد احمد مصباحی صاحب قبلہ (جامعہ امجدیہ، گھوسی) کی سنجیدہ و علمی تحریر ذیل میں ملاحظہ فرمائیں جو صحیح مسئلہ کو بالکل واضح کردیتی ہے۔
وہابی کا ذبیحہ
آج کل شوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ خوب گردش کر رہی ہے جو حضورشیخ الاسلام کی طرف منسوب ہے۔ گوکہ ویڈیو حجت شرعیہ نہیں مگر اب تک حضور والا کی طرف سے نفی میں یا پھر اجمال کی تفصیل میں کوئی بیان نہیں آیا جس کاواضح مطلب ہے کہ یہ بیان اپنے جمیع اجزا کے ساتھ حضور والا کی طرف سے جاری وثابت ہے ۔ذرائع ابلاغ وترسیل کی برق رفتاری کو دیکھتے ہوئے بیان مذکور سے عدم واقفیت کا امکان بھی ’’نہ ‘‘کے برابر ہے ۔
بیان میں وہابی کے ذبیحہ کے تعلق سے سوال ہوا تو جواب میں حضور والا نے ارشاد فرمایا: ’’ذبیحہ جو حرام ہے ،وہ کسی کافر کا حرام ہے ،گمراہ کا ذبیحہ حرام نہیں جب تک اس کی گمرہی حد کفر کو نہ پہنچی ہو۔ ‘‘مزید فرمایا : ’’وہابی ایک گمراہ جماعت ہے، اس کی گمراہی میں کوئی شک نہیں ،مگر ان وہابیوں میں کو ن درجہ کفر تک پہونچا؟جب ہمارے جلیل القدر علما نےان کی پہچان کرائی تو وہ صرف پانچ ہیں ،درجہ کفر تک پہونچنے والے صرف پانچ ہیں۔ ‘‘ مزید فرماتے ہیں : ’’ذبیحہ کے حرام ہونے کے لئے کفر کا قطعی علم ہونا چاہئیے جو کسی کو ہوتا نہیں ہے ،بہت سارے مولوی حضرات کو بھی نہیں ہوتا ہے۔ ‘‘مزید فرماتے ہیں: ’’ آپ یقین جانئے اور امید رکھئے کہ جتنے ذبیحہ کرنے والے ہیں وہ درجۂ کفر تک نہیں پہونچے ہیں ۔لہذا اس میں کرید کرنے کی ضرور ت نہیں ۔ان کا ذبیحہ حلال ہے۔‘‘
یہ تھا حضور شیخ الاسلام کے جواب کا خلاصہ!!!
اس جواب سے سنجیدہ علما میں اضطراب ہے ۔اس جواب کو سننے کے بعد عام آدمی کے مطلع ذہن وفکر پر یہ تأثر ابھرتا ہے کہ پانچ وہابی کے علاوہ عام وہابی کا ذبیحہ حلال ہے ،حرام ومردار نہیں ۔اب تک جو بتایا گیا تھا کہ وہابی کا ذبیحہ مثل خنزیر حرام ومردار ہے وہ غلط ہے۔
جب کہ اصول افتا ورسم المفتی میں یہ پڑھایا گیا ہے کہ مفتی کا جواب سوال کے مطابق ہونا چاہئے اور جواب ایسا مجمل بھی نہ ہونا چاہئے جو کسی غلط فہمی اور شبہ کو راہ دے جب کہ یہاں دونوں باتیں مفقود ۔
یہاں سوال وہابی کے ذبیحہ کے تعلق سے ہے اور وہابی اپنے مخصوص کفری عقائد کے سبب ایک باطل فرقہ کی حیثیت سے متعارف ہے جو اسلام سے خارج اور کافر ومرتد ہے ۔
میری ناقص رائے میں یہاں ذبیحہ کا وہ حکم بیان ہونا چاہئے جو وہابی فرقہ کے جماعتی حکم پر متفرع ہے یعنی ذبیحہ کا حرام ومردار ہونا ، ظاہر ہے یہاں سوال اس جماعت کے ذبیحہ سے متعلق ہے جس پر لفظ ’’وہابی ‘‘بولا گیا ہےاور جب مطلقا وہابی بولا جاتا ہے تو اس سے وہابی فرقہ مراد ہوتا ہے جیسے وہابی کا مدرسہ ،وہابی کی مسجد، توجواب میں بھی اس پہلو کی رعایت لازم تھی ۔اور یہی روشِ فقہی کا تقاضا تھا۔ ہاں !جو بالکل جاہل ہیں یا جنہیں کبرائے وہابیہ کے اقوال کفریہ وعقائد باطلہ پر یقینی اطلاع نہیں وہ وہابی نہیں اور نہ ہی ان کے ذبیحہ کے بارے میں سوال میں پوچھا گیا ہے ،تو جواب سوال کے مطابق نہیں ۔اگر قادیانی کے ذبیحہ کے بارے میں سوال ہوتو سیدھا سادہ جواب یہ ہوگا کہ قادیانی اپنے اقوال کفریہ کے سبب کافر ومرتد ہیں اور ان کا ذبیحہ حرام ومردار ۔ وجہ وہی ہے کہ قادیانی اسلام سے خارج ایک باطل فرقہ ہے ،جو کافر ومرتد ہے اور ان کے ذبیحہ کا وہی حکم ہے جو کافر ومرتد کے ذبیحہ کا حکم ہے ۔
ہاں ! جب کسی فرد پر وہابی یا دیوبندی یا قادیانی کا الزام لگاتے ہوئے کوئی ان کے ذبیحہ کا حکم پوچھے تو اب مفتی پر لازم ہے کہ اس کی تحقیق وتفصیل کرے اور بہر تقدیر اس کا جو حکم شرعی ہو بیان کرے ۔
یہ بھی واضح رہے کہ وہابیہ کی دوشاخیں ہیں
(۱)وہابیہ مقلدین یعنی دیوبندی
(۲)وہابیہ غیر مقلدین یعنی نام نہاد سلفی،اہل حدیث
وہابیہ مقلدین کے بانیان میں رشید احمد گنگوہی ،قاسم نانوتوی، اشرف علی تھانوی ،خلیل احمد انبیٹھوی شمار کئے جاتے ہیں جن کی نام بہ نام تکفیر کلامی حسام الحرمین میں درج ہے ۔
کیایہی وہ کبرائے وہابیہ ہیں جن کی تعداد جلیل القدرعلما کی نشاندہی کے مطابق پانچ بتائی جارہی ہے؟ جب کہ ان کی تعداد پانچ نہیں چار ہے ۔
رہا مرزا غلام احمد قادیانی تو اگر چہ یہ بھی کافر ومرتد ہے مگر اس کا شمار وہابی جماعت میں نہیں ہوتا ۔وہ خود قادیانی فرقے کا بانی ہے۔ اس کی بھی تکفیر کلامی حسام الحرمین میں درج ہے،اگر مرزاغلام احمد قادیانی کے بجائے اسمعیل دہلوی کو شمار کرکے پانچ میں حصر کا دعوی کیا گیا ہے جیسا کہ یہی ظاہر ہے تو یہ دعوائے حصر بھی دعوائےمحض ہے۔اسمعیل دہلوی جیسے کئی افراد ایسے ہیں جن کا کفر ان کی کتابوں میں چھپا ہے جیسے صدیق حسن بھوپالی ،اس نے اللہ کے لئے جہت ومکان مانا ،فقہ حنفی کو باطل اور ناحق جانا،قیاس شرعی اور اجماع قطعی کا انکار کیا ،اس کا مشہور قول ہے ’’قیاس فاسد واجماع بے اثر آمد‘‘مقلدین کو مشرک اور بے ایمان بتایا، کم وبیش یہی نظریہ مولوی سعید بنارسی، مولوی ابوالقاسم بنارسی،کلانوری غیر مقلد کا بھی ہے ۔
یہ سب کے سب عند الفقہا کافر ہیں۔اسی حکم میں میاں نذیر حسین دہلوی بھی داخل ہے ۔تفصیل کے لئے الکوکبۃ الشہابیۃ، سل السیوف الہندیہ والنہی الاکید وغیرہا کتب کی طرف مراجعت کی جاسکتی ہے ۔
یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ وہابیہ غیر مقلدین اگر چہ اپنے ابتدائی دور میں جماعتی طور پر کافر فقہی تھے مگر بعد کے ادوار میں جیسے جیسے وہ دیوبندیوں کے عقائد میں شریک ہوتے گئے حکم ،کفر فقہی سے کفر کلامی کی طرف منتقل ہوگیا اور فتاوی رضویہ میں دونوں حکم موجود ہے ۔اعلی حضرت امام احمد رضا فرماتے ہیں:
’’طائفہ تالفہ غیر مقلدین گمراہ بددین اور بحکم فقہ کفارومرتدین جن پر بوجوہ کثیرہ لزوم کفر بین مبین‘‘ (جلد ششم ،ص ۳۳)
ایک مقام پر اس طرح رقم طراز ہیں:
’’سوال :غیر مقلدین سب کے سب کافر ہیں ؟
جواب :ان میں ضروریات دین سے کسی شئی کا جو منکر ہے، یقینا کافر ہے اور جو قطعیات کے منکر ہیں ان پر بحکم فقہا لزوم کفر ہے ‘‘ (جلد ششم ،ص۳۲)
بلکہ رسالہ’’ الکوکبۃ الشہابیہ ‘‘ میں ستر (۷۰)وجوہ سے ان پر اور ان کے پیشوا پر بحکم فقہائے کرام لزوم کفر ثابت کیا ہے۔
(جلد ششم،ص۱۲۱)
ایک مقام پر یوں ارشاد فرماتے ہیں :
’’غیر مقلدین وہابیہ پر بوجوہ کثیرہ الزام کفر ہے۔ ان میں جو منکرِ ضروریاتِ دین ہیں وہ تو بالاجماع کافر ہی ہیں ورنہ فقہائے کرام ان پر حکم کفر فرماتے ہیں۔‘‘ (فتاوی رضویہ ،جلد ہشتم ،ص۳۳۲)
اس قسم کی عبارتیں فتاوی رضویہ میں کثیر ہیں ،استقصاءمقصود نہیں ،مگر پھر جب ان کے احوال بدلے حکم بھی بدل گیا۔
اعلی حضرت امام احمد رضا ارشاد فرماتے ہیں :
’’ان دیار میں وہابی ان لوگوں کوکہتے ہیں جواسمعیل دہلوی کے پیرو اور اس کی کتاب تقویۃ الایمان کے معتقد ہیں۔یہ لوگ مثل شیعہ ،خارجی ،معتزلہ وغیرہم اہل سنت وجماعت کے مخالف مذہب ہیں ،ان میں سے جس شخص کی بدعت حد ِکفر تک نہ ہو، یہ اس وقت تک تھا، اب کبرائے وہابیہ نے کھلے کھلے ضروریاتِ دین کا انکار کیا اور تمام وہابیہ اس میں ان کے موافق یا کم از کم ان کے حامی یا انہیں مسلمان جاننے والے ہیں اور یہ سب صریح کفر ہیں تو اب وہابیہ میں کوئی ایسا نہ رہا جس کی بدعت کفر سے گری ہوئی ہو خواہ غیر مقلدہو یا بظاہر مقلد ‘‘(جلد ۳،ص ۱۷۰)
اسی لئے بہت سی جگہوں پر بغیرکسی قید وتفصیل کے یہ فرمایا کہ وہابیہ کا ذبیحہ حرام ومردار ،مثل خنزیر ہے (جلد ۸،ص۳۳۹)
ان عبارات سے ان مولویوں کا بھی اشتباہ دور ہوجاناچاہئے جو اعلی حضرت امام حمد رضا کی عبارتوں میں تعارض سمجھ رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اعلی حضرت امام احمد رضانے کہیں وہابیوں پر مطلقًا حکمِ کفر عائد کیا اور کہیں قیود وشرائط کے ساتھ ۔
مذکورہ بالا عبارتوں سے جب وہابیہ کی دونوں شاخوں کا حکم واضح ہوگیا تو یہ بھی واضح ہوگیا کہ ان کے ذبیحہ کے حرام ومردار ہونے میں کوئی شبہ نہیں ،چاہے وہابیہ مقلدین کا ذبیحہ ہو، یاغیر مقلدین کا ،چاہے حسام الحرمین میں ان کی تکفیر درج ہو،یا نہ ہو ،وہ علما ہوں یا عوام۔اگر وہ وہابی عقیدے پر ہیں تو ان کا جماعتی حکم یہی ہے کہ ان کا ذبیحہ حرام ومردار ہے ۔برتقدیر وہابی ،دیوبندی نہ تحقیق کی ضرورت ،نہ تفصیل کی حاجت۔جہاں حکم باعتبار جماعت ہو وہاں تحقیق کی ضرورت نہیں ۔جب فرد اور شخص کے بار ے میں سوال ہوگا تو تحقیق وتفصیل کی بنیاد پر حکم ہوگا ۔
اس مقام پر یہ بات بھی قابل حیرت ہے کہ مسئلہ ذبیحہ میں صرف پانچ کو کافر مان کر باقی سب کو گمراہ وبدمذہب قرار دیا گیا اور حکم کفر کے ثبوت کو اطلاع شرعی پر معلق کردیاگیا ،اور ان پانچوں کا نام بھی نہیں ذکر کیا گیا ۔
اس سے یہ تأثر قائم ہوتا ہے کہ جب تک ذابح اس درجہ کا کافر نہ ہو جو حسام الحرمین میں مذکور ہیں تو اس کا ذبیحہ حرام نہیں ہوگا جب کہ مسئلہ ذبیحہ میں کافر کلامی اور کافر فقہی دونوں کا حکم ایک ہے کیونکہ ذبیحہ کا حرام ہونا یا حلال ہونا حکمِ فقہی ہے ۔لہذا جو بحکمِ فقہا کافر ہوگا اس کا ذبیحہ بھی حرام ہوگا جب کہ متکلمین کے مذہب پر وہ کافر نہیں ۔اعلی حضرت امام احمدرضاقدس سرہ دونوں قسم کے کافروں کے ذبیحہ کا حکم ایک ساتھ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
’’قادیانی صریح مرتد ہیں۔ان کا ذبیحہ قطعی مردار ہے اور غیر مقلدین وہابیہ پر بوجوہ کثیرہ الزامِ کفر ہے اور ذبیحہ کا حلال ہونا نہ ہونا حکم فقہی ہے خصوصًا وہی احتیاط کہ مانع تکفیر ہو ،یہاں ان کے ذبیحہ کے کھانے سے منع کرتی ہے کہ جمہور فقہا ئے کرام کے طور پر حرام ومردار کا کھانا ہوگا ،لہذا احتراز لازم ہے ۔‘‘
(فتاوی رضویہ ،جلد ۸،ص۳۳۲)
مذکورہ بالا تفصیلات سےاہل فہم پر روشن ہوگیا ہوگا کہ وہابی، دیوبندی کا ذبیحہ مطلقا حرام ومردار ہے ،چاہے وہ کافر کلامی ہو، یا کافر فقہی ،چاہے اس کی تکفیر کسی کتاب میں مذکور ہو یانہ ہو ،اور یہ بھی واضح ہوگیا کہ اب کوئی وہابی ایسانہیں جس کی بدعت حد کفر تک نہ پہونچ گئی ہو ،ضروریاتِ دین کا انکار اور اللہ ورسول جل جلالہ وصلی اللہ علیہ وسلم کی توہین میں یہ وہابی ،دیوبندیوں کے ساتھ برابر کے شریک ہیں اس لئے نکاح ،نماز، ذبیحہ اور جملہ احکام میں یہ انہیں کے مثل ہیں جن کی تکفیر حسام الحرمین میں درج ہے ۔
یہی حکم موجودہ دور میں ان کے علما ،واعظین ،مناظرین ،مبلغین،مدرسین،مصنفین اور ان طلبہ اور عوام کا ہے جو طواغیت اربعہ کے اقوال کفریہ پر یقینی اطلاع رکھتے ہوئے ان کو اپنا پیشوا مانتے ہیں اور ان کے اقوال کی تاویلیں کرتے ہیں یا کم ازکم ان کو مسلمان مانتے ہیں ، یا ان کے کفر وعذاب میں شک کرتے ہیں ،یہ سب کافر ومرتد ہیں اور ان کی تعداد لاکھوں میں ہے ،بلکہ ان کے خواص تو خواص پڑھے لکھے عوام بھی ہم سنیوں کو عقیدۂ علم غیب ،عقیدۂ حاضروناظر اور عقیدۂ توسل کی وجہ سے مشرک مانتے ہیں تو کیا اہل سنت کو مشرک کہنے والے صرف گمراہ ہیں ؟اور ان کا ذبیحہ حلال ہے ؟
ہاں! اگر ایسا کوئی شخص ان میں پایا جائےجو بالکل کچھ نہیں جانتا جس کا حضور والا نے ذکر کیا تو اس کی تکفیر نہیں ہوگی اور ذبیحہ حلال ہوگا ۔اعلی حضرت امام احمد رضا کافر کلامی اور کافر فقہی کا حکم لکھنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں :
’’اگر کوئی غیر مقلد ایسا پایاجائے کہ صرف انہیں فرعی اعمال میں مخالف ہو اور تمام عقائد قطعیہ میں اہل سنت کا موافق ،ایسوں پر حکمِ تکفیر ناممکن ۔‘‘(فتاوی رضویہ ،جلد ۶،ص۳۲)
آج کے دور میں جب کہ وہابی ،دیوبندی حشرات الارض کی طرح پھیلے ہوئے ہیں ،نگر نگر،ڈگر ڈگر ،گاؤں گاؤں ،شہر شہر دیوبندیت، وہابیت کی تبلیغ میں سرگرم ہیں ،اپنے مذہب کے فروغ کے لئے جگہ جگہ اجتماعات وجلسے کررہے ہیں، کثیر تعداد میں جگہ جگہ مدارس اور مساجد بنوا رہے ہیں ،بہت سے سادہ لوح سنی حضرات نماز،روزہ کی محبت میں ان کے اجتماعات وجلسوں میں شریک ہوکر ان کے ہم خیال ہوتے چلے جارہے ہیں ،کیا یہ ضروری نہیں کہ ذبیحہ کی جانچ کی جائے؟ جب کہ تمام اشیا میں اصل اباحت ہے اور ذبیحہ میں اصل حرمت ،یعنی ذبیحہ اصل میں حرام ہے جب تک کہ یہ ثابت نہ ہو کہ اس کا ذابح مسلمان ہے اور شرعی طریقہ پر ذبح کیا ہے۔
اس لئے حضور والا کی بارگاہ میں بصد ادب واحترام عرض ہےکہ کلیۃً یہ مشورہ نہ دیا جائے کہ ’’جتنے ذبیحہ کرنے والے ہیں وہ درجہ کفر تک نہیں پہنچے ہیں ،لہذا اس میں کرید کرنے کی ضرورت نہیں ،ان کا ذبیحہ حلال ہے۔ ‘‘ ایسا مشورہ دینا مصلحت شرعیہ کے خلاف ہے بلکہ مقتضائے شرعی یہ ہے کہ اس دور میں جب کہ وہابیت، دیوبندیت ہر طرف پھیل چکی ہے ،بہت سے وہابی، دیوبندی گوشت کی دوکان چلانے کے لئے تقیہ کرکے سنی بنے ہوئے ہیں، تو ایسی صورت میں علما کو یہ مشورہ دینا چاہئیے کہ مسلمان خوب تحقیق اور چھان بین کے بعد ہی ذبیحہ استعمال کریں ۔ بلکہ جس شخص کی سنیت مشتبہ ہو اس کے پاس جاکر علمائے دیوبند کے اقوال کفریہ بیان کرکے ان اقوال کے کفری ہونے اور قائلین کے کافر ہونے کا اعتراف کروایاجائے ۔ اگر کرلے تو ٹھیک ورنہ اس کے ذبیحہ کو حرام سمجھا جائے ۔
نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ احباب وتلامذہ کے مسلسل اصرار پر یہ چند سطور بطور تطفل اس بے مایہ کی طرف سے پیش ہیں۔اگر اس میں کوئی بات یا کہیں اندازِ بیان نامناسب ہوگیا ہو تو میں معذرت خواہ ہوں۔میں حضور والا کے علم وفضل اور بلندوبالا معیارِ تحقیق کا دل سے معترف ہوں اور رب کی بارگاہ میں حضور والاکی صحت ودرازیٔ عمر کے لئے دعا گو ہوں ۔
فقط شمشاد احمد مصباحی
خادم :جامعہ امجدیہ ،رضویہ گھوسی ،
ضلع مئو (یو،پی)
۱۸؍ذی الحجہ ۱۴۴۳ھ مطابق
۱۸؍جولائی ۲۰۲۲ءبروزدوشنبہ
وہابی کے ذبیحہ کے مسئلے میں سید مدنی میاں صاحب کے بیان کے تناظر میں حضرت علامہ مفتی شہزاد عالم رضوی صاحب قبلہ (جامعۃ الرضا، بریلی شریف) کی سنجیدہ و علمی تحریر ضرور ملاحظہ فرمائیں جو صحیح مسئلہ کو بالکل واضح کردیتی ہے۔ نیچےکِلک کریں:
نیچے کِلک کرکے ایک شاندار مضمون پڑھیے جس میں بتایا گیا ہے کہ شیخ الاسلام حضرت علامہ سید مدنی میاں صاحب کے بتائے ہوئے ضابطے کے مطابق عام دیوبندی وہابی بھی کافر ہیں اور ان کا ذبیحہ ناجائز و حرام مثل مردار ہے۔
نیچے کِلک کرکے سنیے کہ توقیر رضا نے صاف اعلان کردیا کہ:
’’شیعہ، سنی، وہابی، اہلحدیث، یہ تمام میرے نزدیک مسلمان ہیں!‘‘ معاذاللہ
Bahar e Shariat Mukammal Ghar Baithe Discount Hadiye Me Hasil Karne Ke Liye Niche Click Karen.
Hum Aap se Guzarish Karte Hain Ke Aap Hame Koi Paigam Ya Message Dijiye ya Kum se Kum Apna WhatsApp Number Dijiye Taa ke Hum Aap Ko Direct Msg Bhej Saken. Sab se Pahle Aap Hamara Number Save kijiye:-
(+91) 96070 23653
Ab Aap Apna WhatsApp No. Aur Naam Wagaira Dijiye.